ایشیائی ممالک میں ’آن لائن‘ اظہار رائے کی آزادی پر نظر رکھنے والی ایک مؤقر تنظیم 'ایسوسی ایشن فار پروگریسو کمیونیکیشنز' نے مختلف ملکوں کی سماجی تنظیموں کے اشتراک سے مرتب کردہ رپورٹ میں بھارت اور پاکستان سمیت ایشیا کے چھے ملکوں میں انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
نئی دہلی میں سائبر قانون کے ماہر، ایڈووکیٹ ڈاکٹر فرخ خان نے بھارت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ اسے دو طرح سے دیکھ سکتے ہیں۔ بھارتی آئین کے مطابق، تقریر اور اظہار کی آزادی ایک بنیادی حق ہے۔ لیکن، بقول انکے ’’تقریر کی آزادی اور کسی کی توہین کرنے کی آزادی کے درمیان ایک فائین لائین موجود ہے‘‘۔ بہرحال، انہوں نے اس سے اتفاق کیا کہ اس معاملے میں ابہام ہے۔
ڈاکٹر فرخ خان نے بھارت کے ’انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ‘ کی ایک ایسی شق کے بارے میں خاص طور پر بات کی جسے بھارتی سپریم کورٹ نے ’ڈریکونین‘ قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا۔ انہوں نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ میں ایک شق ’66 اے‘ کے نام سے تھی۔ اس کے تحت پولیس کو مکمل اختیار دیا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص آن لائین کوئی قابل اعتراض مواد اگر کہیں بھی میل میں یا سوشل میڈیا پر لکھتا ہے یا پوسٹ کرتا ہے تو اسے گرفتار کیا جا سکتا ہے‘‘۔ ڈاکٹر فرخ نے بتایا کہ اس شق کے خلاف سخت ردعمل سامنے آیا اور سرگرم کارکنان نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ بقول اُن کے، ’’سن 2015 میں انڈیا کی عدالت عظمیٰ نے اس شق کو ’ڈریکونین‘ قرار دیتے ہوئے اسے رول بک سے نکال دیا‘‘۔
'ایسوسی ایشن فار پروگریسو کمیونیکیشنز' کی رپورٹ کے مطابق، حکومتیں لوگوں کی آن لائن سرگرمیوں کو کنٹرول کر رہی ہیں اور ایسے قواعد و ضوابط لوگوں کی آزادی اظہار اور جمہوری عمل میں ان کی شرکت کی صلاحت کے لیے ایک قابل ذکر چیلنج ہیں۔ اس میں مختلف قوانین کا جائزہ لیا گیا جو کسی نہ کسی طور سے آن لائن خیالات کے اظہار سے وابستہ ہیں اور حالیہ چند برسوں میں انھیں استعمال میں لاکر لوگوں کی آزادی اظہار کے حق کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ بھارت کے کچھ علاقوں میں کئی بار حکام سیکیوریٹی کو وجہ بتا کر انٹرنیٹ پر پابندی عائد کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر فرخ سے پوچھا گیا آیا یہ کسی قانون کے تحت کیا جاتا ہے؟ ایڈوکیٹ فرخ نے کہا کہ ’فیک نیوز‘ یا افواہوں سے بچنے کے لئے کبھی کبھار ایسا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن، اس کے لئے ایک مستند جواز ہونا چاہئے۔
بقول انکے ’’سپریم کورٹ کی جانب سے 66 اے کو نکالے جانے کے بعد لوگوں نے سوشل میڈیا پر ’اناپ شناپ‘ لکھنا اور غیر پارلیمانی زبان کا استعمال شروع کردیا ہے۔ تاہم، انڈین پینل کورٹ میں ایسی شقیں موجود ہیں جن کے تحت سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت پھیلانے یا معاشرے میں تفریق پیدا کرنے کے مرتکب افراد کو حراست میں لیا جا سکتا ہے‘‘۔
Your browser doesn’t support HTML5