لبنان میں پناہ گزین انتہائی غربت میں رہ رہے ہیں

لبنان میں شام کے پناہ گزینوں کی ایک خیمہ بستی۔

اقوام متحدہ کے تین اہم اداروں ، پناہ گزینوں سے متعلق ادارہ ، بچوں کا ادارہ یونیسیف اور عالمی ادارہ خوارا ک کے ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ لبنان میں قیام پذیر دس لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں میں سے تین چوتھائی سے زیادہ غربت کی لکیر سے نیچے چار ڈالر یومیہ سے بھی کم آمدنی پر گزارہ کر رہے ہیں۔

لگ بھگ سات سال کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے سروے سے معلوم ہوا کہ لبنان میں شام کے پناہ گزین پہلے سےزیادہ غریب ہیں اوار ان کے لیے گزر أوقات پہلے سے زیادہ مشکل ہو گئی ہے ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ پناہ گزینوں کے گھرانوں کا ایک فرد ایک ماہ میں اوسطاً 98 ڈالر خرچ کرتا ہے ۔ اس رقم کا لگ بھگ نصف خوراک پر خرچ ہوتا ہے۔

اس سروے کا اہتمام کرنے والے اقوام متحدہ کے اداروں کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر پناہ گزینوں کو خوراک ، صحت کے اخراجات اور رہائش کا کرایہ ادار کرنے کے لیے رقم ادھار لینے کی ضرورت پڑتی ہے اور ہر دس میں سے نو قرض کے بوجھ تلے ہوتے ہیں ۔ پناہ گزینوں کے أمور سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے ترجمان ولیم سپرینڈلرکہتے ہیں کہ یہ قرض پناہ گزینوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ قانونی حیثیت حاصل کرنا مسلسل ایک چیلنج ہے جس کے نتیجے میں پناہ گزینوں کے لیے گرفتاری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور ان کے لیے اپنی شادی رجسٹر کرانا ایک مسئلہ بن جاتا ہے اور ان کے لیے روزانہ کی مزدوری حاصل کرنا، اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا یا ان کا علاج کروانا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے ۔

سپلنڈلرنے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شام کے پناہ گزین جس مشکل صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں وہ انہیں منفی طریقے اپنانے پر مجبور کر رہے ہیں مثلاً بچپن کی شادی اور بچوں کی مشقت۔

وہ کہتے ہیں کہ بہت سے خاندان اپنے بچوں سے کرائی گئی محنت کی اجرتوں کے بغیر گزارہ نہیں کر سکتے ۔ جو چیز سب سے زیادہ پریشان کن ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ کچھ آجر بچوں کو اس لیے ملازم رکھتے یں کہ وہ انہیں بالغوں کی نسبت کم تنخواہیں دیتے ہیں۔

اسپنڈلر کا کہنا ہے کہ لبنان میں شام کے غربت زدہ پناہ گزینوں کا اپنی بقا کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد پر انحصار دن بدن بڑھ رہا ہے ۔ بد قسمتی سے وہ کہتے ہیں کہ امدادی ادارے فنڈز کی سخت قلت کا سامنا کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس سال لبنان میں انسانی ہمدردی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دو اعشاریہ سات ارب ڈالر درکار ہیں۔