عراق میں عسکریت پسند تحریک کی سرپرستی کرنے والی تنظیم دولت اسلامیہ فی عراق ولشام (داعش) نے لبنان کے لیے اپنے سربراہ کے نام کا اعلان کردیا ہے اور تجزیہ کاروں کے مطابق جیسا کہ سنی جگنجو اپنی طاقت کا دائرہ وسیع کررہے ہیں مشرق وسطیٰ کا یہ ملک ان کی کارروائیوں کا مرکز ہو سکتا ہے۔
نامزد کردہ فلسطینی عسکریت پسند عبدالسلام الاردنی کئی برس لبنان میں پناہ گزینوں کے کیمپ میں رہا ہے۔ لبنان کے حکام کے مطابق یہ عسکریت پسند بہت زیادہ سرگرم رہا اور بیروت میں ایک ریسٹورنٹ میں ہونے والے حالیہ حملے کا حکم بھی اسی نے دیا تھا۔
گزشتہ ہفتے آئی ایس آئی ایل یا داعش نے اپنے آپ کو ایک اسلامی ریاست قرار دیتے ہوئے ایک آڈیو ہیغام کے ذریعے خلافت کی بحالی کا اعلان کیا اور ابو بکر البغدادی کو ’’مسلمانوں کا رہنما‘‘ نامزد کیا۔
تجزیہ کار اس اعلان کو آئی ایس آئی ایل کے مخالف شدت پسند گروہ القاعدہ کی وقعت کو کم کرنے کی کوشش سے تشبہہ دے رہے ہیں۔ گزشتہ سردیوں میں القاعدہ نے البغدادی کو ایمن الزواھری کی ہدایات کو اہمیت دینے سے انکار پر شدت پسند تنظیم سے علیحدہ کر دیا تھا۔
بروکنگز انسٹیٹیوٹ سے وابستہ دانشور چارلس لسٹر کہتے ہیں کہ ’’سادہ الفاظ میں کہوں تو ابوبکر البغدادی نے القاعدہ کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا ہے۔‘‘
لبنان کے لیے عسکری تنظیم کے سربراہ کا اعلان البغدادی کے اس خطے سے متعلق وسیع خواہشات کا مظہر ہے جس میں ایک ایسی ریاست بنانا ہے جو عراق، شام اور لبنان کے سنی اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ہو۔
جون کے اواخر میں لبنان میں تین خود کش حملے ہوئے اور عبدالسلام الاردنی کی بطور عسکریت پسند رہنما کے نامزدگی نے حکومتی عہداروں کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔
لبنانی پارلیمان کے اسپیکر بنی بری کا صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا ’’جو کچھ عراق میں ہورہا اس تناظر میں سلامتی کی صورتحال خطرناک ہے۔‘‘
آئی ایس آئی ایل بظاہر بم حملوں کی مہم دوبارہ شروع کرنے کا اشارہ دے چکی ہے تاکہ لبنان میں فرقہ واریت کی بنیاد پر انتشار پھیلایا جائے اور شام میں صدر بشارالسد کی طرف سے لڑنے والے شیعہ عسکریت پسند گروہ حزب اللہ کو نشانہ بنایا جائے۔