سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عام انتخابات پر ازخود نوٹس لینے کے معاملے پر قانونی ماہرین مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت کو اس معاملے پر مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھے جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ آئین پر عمل درآمد کرانا سپریم کورٹ کی ذمے داری ہے۔
حکمران اتحاد نو رکنی بینچ میں سے جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کو الگ کرکے فل کورٹ بنانے کی اپیل دائر کر چکا ہے۔
سپریم کورٹ میں اس اہم آئینی ازخود نوٹس کیس کے لیے تشکیل دیے گئے بینچ میں چیف جسٹس کے بعد عدالت کے دو سینئر ترین ججز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کو شامل نہیں کیا گیا۔
پاکستان بار کونسل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کو نو رکنی بینچ کا حصہ بنانے کا مطالبہ کر چکی ہے۔
بار کونسل کی جانب سے اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر علی نقوی پر اٹھائے گئے اعتراضات کے بعد وہ خود بینچ سے علیحدہ ہوجائیں گے۔ سندھ ہائی کورٹ بار نے بھی جسٹس اعجاز الاحسن سے خود کو بینچ سے علیحدہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کے قوانین کے تحت ازخود نوٹس لینے اور ازخود نوٹس سمیت کسی بھی کیس کی سماعت کے لیے بینچ کی تشکیل کے کُلی اختیارات چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس کو حاصل ان اختیارات کے خلاف بعض وکلا اور سول سوسائٹی آوازیں اٹھاتی رہی ہیں جن کا مطالبہ رہا ہے کہ از خود نوٹس کا اختیار چیف جسٹس سے لے کر عدالت کے سینئر ججز پر مشتمل کمیٹی کے سُپرد کیا جائے۔
ماہر قانون اور ممتاز وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد کے خیال میں اُن کے بقول موجودہ 'عدالتی بحران' کا آغاز سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس کے فیصلے سے ہوا تھا۔
قانونی ماہرین سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو 'متنازع' قرار دیتے ہیں جن میں اعلیٰ عدالت نے اکثریتی فیصلے کے ذریعے پنجاب اسمبلی میں پارٹی پالیسی سے منحرف ہونے والے ارکان کے ووٹوں کو نہ گننے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف کی عددی اکثریت ختم ہونے سے ان کی وزارت اعلیٰ چلی گئی تھی۔
ماہر قانون اور ممتاز وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ عدالتی بحران درحقیقت یہیں سے شروع ہوا جس میں پانچ رکنی بینچ کے تین ارکان نے قرار دیا تھا کہ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کی جانب سے دی جانے والی ہدایات کے برخلاف ووٹ کو نہیں گنا جائے گا۔
لیکن بیرسٹر احمد کے بقول یہ فیصلہ دینے سے درحقیقت عدالت نے آئین کی تشریح نہیں کی بلکہ یہ آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف تھا اور یوں اس فیصلے نے ایک نئے سیاسی اور آئینی بحران کو جنم دیا۔
انہوں نے اپنے مؤقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں موجود شق 96 کو ساتویں آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کیا جاچکا ہے جس میں پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے ارکان کے ووٹ کو نہ گننے کا قانون بنایا گیا تھا۔
لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے ارکان کے ووٹوں کو نہ گننے کو دوبارہ قانون کا حصہ بنایا گیا۔
بیرسٹر صلاح الدین احمد کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے نظرِ ثانی کی درخواست پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے جس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کو فل کورٹ بینچ دیا جانا چاہیے تاکہ اس فیصلے پر نظر ثانی ہو۔
ماہرین کے خیال میں اگر پانچ رکنی بینچ کے اُس فیصلے کو فل کورٹ تبدیل کرتا ہے جس کے امکانات بہرحال کم ہیں تو ایسی صورت میں پرویز الٰہی کے بجائے پھر سے حمزہ شہباز کو وزرات اعلیٰ مل سکتی ہے۔ یوں اس کے بعد وزیرِ اعلیٰ پرویز الٰہی کی جانب سے اسمبلی کی تحلیل سمیت دیگر احکامات کالعدم قرار دیے جا سکتے ہیں۔
اسی نوعیت کا نکتہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں موجود جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ نے بھی اٹھایا ہے کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا اسمبلی کی تحلیل بھی ٹھیک طور پر ہوئی ہے یا نہیں؟
بیرسٹر صلاح الدین کا خیال ہے کہ وزیر اعلیٰ کے اسمبلی توڑنے کے اختیارات کو محدود کرنا بھی خطرناک ہوگا کیوں کہ یہ بہرحال سیاسی فیصلے ہوتے ہیں اور اس پر کسی قسم کی قدغن لگانے کو مشہور زمانہ آئینی شق 58 (2) بی جس کے ذریعے اسمبلی توڑنے کا اختیار صدر اور گورنر کے پاس ہوتا تھا کو واپس لانے کے مترادف ہوگا۔
تاہم دوسری جانب بیرسٹر صلاح الدین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ صوبائی حکومتوں کے انتخابات 90 روز کے اندر ہونے سے متعلق آئین میں کوئی ابہام موجود نہیں اور اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔
اُن کے بقول دیکھنا یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ الیکشن کی تاریخ دینے سے متعلق کیا فیصلہ صادر کرتی ہے۔
"ازخود نوٹس لینا ایک غلطی؛ سپریم کورٹ کو انتظامی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے'
ماہرِ قانون اور سابق جج جسٹس شائق عثمانی سپریم کورٹ کی جانب سے اس معاملے پر ازخود نوٹس لینے ہی کو غلطی قرار دیتے ہیں۔
ان کے خیال میں یہ کام انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ انتخابات کب کرائے جائیں۔ عدلیہ نے یہ ذمے داری اپنے ذمے لینے کی کوشش کی جو انہیں نہیں لینی چاہیے تھی۔
خاص طور پر سپریم کورٹ کے قوانین کے تحت بھی ازخود نوٹس تب لیا جاتا ہے جب آئین کے تحت دیے گئے بنیادی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہوتی ہے یہاں پر اب تک کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی تھی۔
اُن کے بقول آئین میں دیے گئے وقت کے مطابق ابھی 90 روز پورے نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس لینا درحقیقت انتظامیہ کے کام میں مداخلت کے مترادف ہے۔
جسٹس (ر) شائق عثمانی کہتے ہیں کہ آئین ہر ادارے کے لیے الگ الگ اختیارات کی بات کرتا ہے۔ اب چوں کہ وہ اس میں مداخلت کر بیٹھے ہیں تو پھر عدلیہ کے بعض ججز کے حوالے سے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ یہی نکتہ ازخود نوٹس کے لیے تشکیل دیے جانے والے بینچ کے ایک رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی اٹھاتے ہوئے اس پر سوال اٹھایا ہے۔
"سپریم کورٹ کے فیصلے نے مستقبل میں پارٹی پالیسی سے انحراف کے دروازے بند کردیے"
لیکن آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس میں چوہدری پرویز الہی کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل چوہدری اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے خیال میں ایسا کہنا بالکل غلط ہے کہ موجودہ آئینی بحران کی وجہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بنا ہوا ہے بلکہ اس کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اُس فیصلے نے آئندہ کے لیے پارٹی پالیسی سے انحراف کے دروازے بند کردیے جس سے سیاسی بحران جنم لیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے بقول سیاسی بحران اور بھی سنگین ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو نہ صرف انحراف شدہ ووٹوں کو نہ گننے کا حکم دیا جانا چاہیے تھا بلکہ اس بھی آگے جا کر ایسے ارکان کو تاحیات نااہلی کی سزا دی جانی چاہیے تھی۔ انہوں نے بتایا کہ نہ صرف آج بلکہ منحرف اراکین اسمبلی کو کبھی تاریخی طور پر بھی پسند نہیں کیا گیا۔
"سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینے کا فیصلہ بہترین ہے"
چوہدری اظہر صدیق ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی جانب سے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نہ کرانے پر تاخیر پر ازخود نوٹس لیے جانے کو بھی سراہتے نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ "آپ خود دیکھیں کہ 14 اور 17 جنوری کو صوبائی حکومتیں تحلیل ہونے کے بعد 40 روز سے زائد کا وقت گزر چکا ہے، یوں آئینی حکم کو پورا کرنے کے لیے اب 50 سے بھی کم دن رہ گئے ہیں۔"
اظہر صدیق کہتے ہیں کہ انتخابی شیڈول کو مکمل ہونے میں ہی 54 روز لگ جاتے ہیں۔ ایسے میں تو پہلے ہی آئینی احکامات پر عمل درآمد تاخیر کا شکار ہوچکا ہے جب کہ 10 فروری کو لاہور ہائی کورٹ واضح احکامات دے چکی ہے کہ الیکشن کمیشن گورنر کے ساتھ مشاورت کرکے الیکشن کی تاریخ دے۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل فائل کردی گئی۔
بیرسٹر صلاح الدین احمد کہتے ہیں کہ جسٹس اعجاز الاحسن 73 اہم سیاسی نوعیت کے مقدمات میں بینچ کا حصہ رہے جب کہ دوسری جانب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایسے صرف 9 مقدمات کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ بنے۔
خیال رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عام انتخابات کے معاملے پر چیف جسٹس نے 22 فروری کو ازخود نوٹس لیا تھا۔ ازخود نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے نوٹ لکھا تھا کہ سپریم کورٹ کے دو جج صاحبان کی طرف بھجوائی گئی تجویز پر بنایا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ لارجر بینچ جن سوالات کا جائزہ لے گا ان میں پہلا سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے آئینی ذمے داری کس کی ہے؟ دوسرا سوال ہے کہ عام انتخابات کی ذمے داری کب اور کیسے ادا کی جائے گی؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وفاق اور صوبے کی ذمے داری کیا ہے؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ اسمبلی ختم ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینا کس کی آئینی ذمے داری ہے؟