بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی قرار نہ دینے کا معاملہ بھارت میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
فیصلے پر ملک بھر کے ہم جنس پرست جوڑوں، ایل جی بی ٹی کیو برادری اور ان کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم انہوں نے اپنی لڑائی آگے جاری رکھنے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔
جنسی مساوات کے لیے سرگرم نئی دہلی کے ایک ادارے ’ناز فاؤنڈیشن‘ نے بھی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’ہم لوگ بہت امید کے ساتھ فیصلے کا انتظار کر رہے تھے لیکن ہمیں مایوسی ہوئی۔‘
ناز فاؤنڈیشن میں پروگرام مینیجر ساحل چودھری کہتے ہیں کہ سماعت کے دوران ججز کے رویے پر وہ بہت پراُمید تھے، لیکن فیصلے نے دل توڑ دیے ہیں۔
یاد رہے کہ ناز فاؤنڈیشن ہی نے ہم جنسی رشتے کو غیر قانونی قرار دینے والی دفعہ 377 کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں درخواست داخل کی تھی۔ بعد میں سپریم کورٹ نے اس معاملے پر سماعت کے بعد اس دفعہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ہم جنسی رشتے کو قانونی درجہ دے دیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ساحل چودھری کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ ناقابلِ قبول ہے کہ اس برادری کو قانونی حق فراہم کرنے کا اختیار اس کے پاس نہیں ہے۔ ان کے بقول وہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے اگر وہ اس اقلیتی برادری کے حقوق کا تحفظ نہیں کرے گی تو کون کرے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ "ایک طرف سپریم کورٹ ہمارے حقوق کے تحفظ کی بات کرتی ہے۔ لیکن دوسری طرف وہ ہمیں دوسرا دروازہ دکھا رہی ہے اور وہ دروازہ تو پہلے سے ہی پوری طرح بند ہے۔"
اس معاملے میں پہلی درخواست گزار سپریو چکرورتی نے بھی گہری مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
لیکن اُنہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ ایک روز ہمیں شادی کرنے کا مکمل حق ملے گا۔ ان کے بعد ہی دیگر 20 افراد کی جانب سے مختلف عدالتوں میں درخواستیں داخل کی گئی تھیں جن کو سپریم کورٹ میں طلب کرکے ایک ساتھ ملا دیا گیا تھا۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے سپریو چکرورتی کا کہنا تھا کہ 2018 میں ایک پیش رفت ہوئی اور ہم جنسی رشتے کو قانونی درجہ ملا۔ ہمیں امید ہے کہ ہم جنس شادی کو ایک روز قانونی طور پر تسلیم کر لیا جائے گا۔
ایک اور درخواست گزار حیدرآباد کی وجینتی وسنتا کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اس بات کی یاددہانی ہے کہ ہمیں اپنی حکمتِ عملی از سرنو تیار کرنا ہو گی۔
ان کے بقول ہم جنس شادی کی مخالفت پرسنل لاز اور مذہب کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔ لہٰذا مذہبی رہنماؤں، حکومت اور منتخب اداروں کے ساتھ تبادلۂ خیال کی ضرورت ہے۔
ساحل چودھری مذہبی رہنماؤں اور حکومت کے ساتھ تبادلۂ خیال کی بات تو نہیں کرتے لیکن انہوں نے اشارہ دیا کہ اس فیصلے پر نظرِثانی کی درخواست داخل کی جا سکتی ہے۔
ان کے بقول ’سپریم کورٹ نے ہم جنسی رشتے کے تعلق سے 2013 میں ایک برعکس فیصلہ دیا تھا۔ اس کے خلاف نظرِثانی کی اپیل دائر کی گئی تھی۔ ممکن ہے کہ سپریم کورٹ ایک بڑے بینچ میں اس پر سماعت کرے‘۔
'حق میں فیصلہ آ جاتا تو معاشرتی رویے بھی بدلتے'
بعض ہم جنس پرستوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کے حق میں فیصلہ آجاتا تو ان کے اہلِ خانہ کی جانب ان لوگوں کے ساتھ جو رویہ اپنایا جاتا ہے وہ بدل سکتا تھا۔ اس صورت میں اپنے خاندان سے ہماری لڑائی آسان ہو جاتی۔
ایل جی بی ٹی کیو برادری کے کیس میں ان کی جانب سے جرح کرنے والی وکیل مسکان ٹبرے والا کا کہنا ہے کہ حکومت ہمارے حقوق کی حامی نہیں ہے اور تاریخی طور پر سپریم کورٹ نے اس برادری کے حقوق کا دفاع کیا ہے اس کے باوجود وہ اپنی ذمے داری ادا کرنے میں ناکام رہی۔
اس کیس میں درخواست گزاروں کی جانب سے بحث کرنے والی سینئر وکیل گیتا لوتھرا نے کہا کہ ان کے خیال میں تمام ججز نے شاندار فیصلہ سنایا ہے۔
SEE ALSO: بھارت: سپریم کورٹ کا ہم جنس شادی کو قانونی درجہ دینے سے انکارسیاسی جماعتوں کا ردِعمل
سیاسی جماعتیں اس معاملے میں تقریباً ایک پیج پر ہیں۔ حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔
بی جے پی کے رکن پارلیمان سشیل کمار مودی نے، جنھوں نے راجیہ سبھا میں ہم جنس شادی کی مخالفت کی تھی، فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ انھیں خوشی ہے کہ عدالت نے حکومت کے مؤقف کو تسلیم کیا۔
اپوزیشن کانگریس نے درمیان کا راستہ اختیار کیا۔ پارٹی کے کمیونی کیشن انچارج جے رام رمیش نے 'ایکس' پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ ہم فیصلے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ لیکن کانگریس تمام شہریوں کی آزادی، انتخاب کے حق اور دیگر تمام حقوق کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ پارٹی غیر امتیازی عدالتی، سماجی اور سیاسی عمل کی حامی ہے۔
’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے بھی فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ہمارا جمہوری نظام اس معاملے کے تمام پہلؤوں کا جائزہ لے سکتا اور فیصلہ کر سکتا ہے۔
'خوشی ہے کہ عدالت نے حکومت کا مؤقف تسلیم کیا'
حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان کو خوشی ہے کہ عدالت نے حکومت کے مؤقف کو تسلیم کیا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے یہ کہتے ہوئے فیصلے کا خیرمقدم کیا کہ اس نے پارلیمان کی بالادستی کے اصول کو تسلیم کیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ میرے عقیدے اور ضمیر کے مطابق شادی صرف مرد اور عورت میں ہو سکتی ہے۔ یہ معاملہ دفعہ 377 جیسا نہیں ہے۔ یہ شادی کو تسلیم کرنے کا معاملہ ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اسٹیٹ اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔
جمعیت علما ہند کے صدر اور سابق رکن پارلیمان مولانا محمود اسد مدنی نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ شادی کے روایتی طریقے پر زور دیتا ہے جو صدیوں سے ہمارے معاشرے کا ایک بنیادی ستون ہے۔
ادھر تقریباً تمام روزنامہ اخباروں نے فیصلے پر اداریہ شائع کیا ہے۔ ان میں سے بیشتر نے ایل جی بی ٹی کیو برادری کے حقوق کی حمایت کی ہے اور اس معاملے کو پارلیمان پر چھوڑنے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
انسانی حقوق کے متعدد کارکنوں، وکلا اور دانشوروں نے اخبارات میں مضامین لکھے ہیں۔ بعض کالم نگاروں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ بات کچھ آگے بڑھی ہے۔
دو درخواست گزاروں آدیتی آنند اور سوسان دیاس نے اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے لیے اپنے مشترکہ کالم میں لکھا ہے کہ آج اگر چہ بہت سے لوگ ہم جنسوں کے درمیان شادی کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن یہ ایک طویل معاملہ ہے اور ایک روز ہمیں حق ملے گا۔ انقلاب رفتہ رفتہ آتا ہے لیکن تبدیلی ضرور آتی ہے۔
نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں استاد اور ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لیے سرگرم سنگھ پریہ شیل آچاریہ نے بھی اس معاملے پر اظہارِ خیال کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمنٹ اس سلسلے میں قانون بناتی ہے تو اس سے معاشرے کو ایک نئی طاقت مل سکتی ہے۔