قندیل بلوچ کیس: ​​​​​​​عدالت نے مقتولہ  کے بھائی اور مرکزی ملزم کو بری کر دیا

مرکزی ملزم محمد وسیم۔ 27 ستمبر، 2019ء (فائل فوٹو)

اِس سے قبل قندیل بلوچ کے والد نے مقامی عدالت میں بھی بیٹے کو معاف کرنے کی درخواست جمع کرائی تھی، جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے سنہ 2019ء میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی

عدالت عالیہ لاہور نے معروف ماڈل قندیل بلوچ کے قتل کیس میں نامزد مرکزی ملزم محمد وسیم کو بری کر دیا ہے، جو مقتول ماڈل کا بھائی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ کے جسٹس سہیل ناصر نے اس مقدمے میں، فریقین میں راضی نامہ ہونے اور گواہوں کے اپنے بیانات سے منحرف ہونے پر مرکزی ملزم وسیم کو بری کیا۔

مقتولہ ماڈل قندیل بلوچ کے والد عظیم کی جانب سے عدالت میں درخواست جمع کرائی گئی تھی کہ اُنہوں نے خدا کی رضا کی خاطر اپنے بیٹے کو معاف کر دیا ہے اور عدالت بھی اسے معاف کر دے۔

Your browser doesn’t support HTML5

قندیل بلوچ کے والد کی گفتگو

کیس کی سماعت کے دوران محمد وسیم کی جانب سے سردار محبوب نے عدالت کے روبرو ملزم کی بریت سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فریقین میں قتل سے متعلق صلح ہو چکی ہے۔

وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں ڈیرہ غازی خان میں مقیم مقتولہ ماڈل ،قندل بلوچ کے والدین سے رابطہ کرنا چاہا تو اُنہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔البتہ ڈیرہ غازی خان سے سینئر صحافی ملک سراج بتاتے ہیں کہ ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع راجن پور میں عام روایت ہے کہ 'کاروکاری' اور غیرت کے نام پر قتل ہونے والے کیسوں میں اکثر ملزمان بری ہو جاتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملک سراج نے بتایا کہ صوبہ پنجاب کے اِن دو اضلاع میں عام روایت ہے کہ جب بھی کسی کو غیرت کے نام پر اُس کے اہلِ خانہ میں سے کوئی قتل کرتا ہے تو اُس کیس کی مدعیت اُسی کے گھر میں سے کوئی کرتا ہے؛ جسے بعد ازاں واپس لے لیا جاتا ہے۔اور ملزمان جلدچھوٹ جاتے ہیں ایسا ہی قندیل بلوچ قتل کیس میں ہوا ہے۔

ملک سراج نے مزید بتایا کہ ایسےمقدموں میں اگر سرکار خود مدعیت میں ہو تو راضی نامے نہیں ہوتے ۔ اُن کی رائے میں چونکہ قندیل بلوچ قتل کیس ذرائع ابلاغ میں بہت زیادہ آ گیا تھا، اِس لیے اِس کیس میں معافی نامہ دیر سے ہوا۔ جس کے باعث پیر کے روز عدالت نے گواہان کے منحر ف ہو جانے اور فریقین کے درمیان راضی نامے کی بنیاد پر مرکزی ملزم کو بری کر دیا۔

یاد رہے کہ قندیل بلوچ کو اُن کے بھائی محمد وسیم نے سنہ دو ہزار سولہ میں غیرت کے نام پر قتل کر دیا تھا۔ قتل کے ایک روز بعد اِس واقعہ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا؛جس کے چند ہی روز بعد کیس کی تحقیقات کے دوران پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا تھا۔

قندیل بلوچ کے قتل کامقدمہ ابتدائی طور پر گزشتہ تین سال سے زائد مقامی عدالت میں زیر سماعت رہا، جہاں مقامی عدالت نے قندیل بلوچ قتل کیس کے مرکزی ملزم اور اُن کے بھائی کی ضمانت منسوخ کر دی تھی۔

واضح رہے کہ اِس سے قبل قندیل بلوچ کے والد نے مقامی عدالت میں بھی بیٹے کو معاف کرنے کی درخواست جمع کرائی تھی، جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے سنہ 2019ء میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔