پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے خلاف درخواست پر اعتراض مسترد؛ کیس مقرر کرنے کا حکم

لاہور ہائی کورٹ (فائل فوٹو)

  • پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے خلاف دائر درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے رجسٹرار آفس کا اعتراض مسترد کر دیا۔
  • لاہور ہائی کورٹ نے درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
  • بینچ نے رجسٹرار آفس کو ہدایت کی کہ درخواستوں پر غیر ضروری اعتراضات عائد کرنے سے گریز کیا جائے۔
  • وفاقی حکومت نے ایک آرڈنینس جاری کیا ہے تو یہ کہیں بھی چیلنج ہو سکتا ہے: عدالت
  • لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض عائد کیا تھا کہ یہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر ہو سکتی ہے۔

لاہور—لاہور ہائی کورٹ نے 'پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس' کے خلاف دائر درخواست پر رجسٹرار آفس کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

پیر کو دورانِ سماعت جسٹس فیصل زمان خان نے غیر ضروری اعتراض عائد کرنے پر رجسٹرار آفس کے افسران پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔

بینچ نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا اعتراض لگایا گیا ہے؟ وفاقی حکومت نے ایک آرڈنینس جاری کیا ہے تو یہ کہیں بھی چیلنج ہو سکتا ہے۔

عدالت نے رجسٹرار آفس کو ہدایت کی کہ آئندہ درخواستوں پر غیر ضروری اعتراضات عائد کرنے سے گریز کرے۔

لاہور میں وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیا الرحمٰن کے مطابق قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض عائد کیا تھا کہ یہ درخواست لاہور ہائی کورٹ میں نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جا سکتی ہے۔

شہری منیر احمد کی درخواست پر ایڈووکیٹ اظہر صدیق عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدارتی آرڈیننس بدنیتی پر مبنی ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم یا زیادہ نہیں کیا جا سکتا۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ عدالت صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دے جب کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت اس درخواست کے حتمی فیصلے تک صدارتی آرڈیننس پر عمل درآمد روکنے کا حکم بھی جاری کرے۔

SEE ALSO: پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کی منظوری متنازع کیوں ہو رہی ہے؟

واضح رہے کہ تین روز قبل صدر آصف علی زرداری نے وفاقی کابینہ سے منظور کیے گئے 'پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس' کی توثیق کی تھی۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے کابینہ نے سرکولیشن سمری کے ذریعے منظوری لی گئی جس کے بعد چیف جسٹس کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے۔

پہلے سے موجود پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق چیف جسٹس اور دو سینئر جج بینچ کی تشکیل کے ذمہ دار تھے۔

صدارتی آرڈیننس کے بعد اب چیف جسٹس، سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کی مرضی کا ایک جج بینچ بنانے کے ذمے دار ہوں گے۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق مزید جانیے

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین کے مطابق قرار سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فل کورٹ سماعت؛ 'پارلیمان اور عدلیہ کی اپنی اپنی آئینی حیثیت ہے'فل کورٹ لائیو کوریج؛ ’یہ تو ایشیا کپ کے فائنل سے بھی زیادہ دل چسپ ہے‘ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ: چیف جسٹس فائز عیسی نے حلف اٹھاتے ہی فل کورٹ تشکیل دے دیاچیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق عدالتی اصلاحات بل باقاعدہ قانون بن گیا

'پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ' کے سیکشن دو میں ایک ذیلی شق شامل کی گئی جس کے تحت کمیٹی میں چیف جسٹس پاکستان کے علاوہ ایک سینئر ترین جج اور ایک چیف جسٹس پاکستان کا نامزد کردہ جج شامل ہو گا۔

صدارتی آرڈیننس نافذ العمل ہونے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے مطابق دوسرے سینئر ترین جج جسٹس منیب اختر کو تین رکنی ججز کمیٹی سے باہر کر دیا جب کہ جسٹس امین الدین خان کو کمیٹی کا رکن نامزد کر دیا گیا ہے۔

جسٹس امین الدین خان سپریم کورٹ میں سنیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر ہیں۔