لیبیا کے یوم آزادی کے موقع پر ملک کی عبوری حکومت کے سربراہ مصطفی کا کہنا تھا کہ کرنل قذافی کے دور حکومت کے قوانین کے برعکس وہ چاہتے ہیں کہ لیبیا میں مردوں کو اپنی بیویوں سے اجازت لیے بغیر چار شادیاں کرنے کی اجازت دی جائے ۔ اس بیان پر مغربی ملکوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ لیکن لیبیا کے کئی شہریوں کواس سے کوئی پریشانی نہیں ۔غیر شادی شدہ 19 سالہ طالبہ ذکیہ حسن کہتی ہیں کہ انہیں نہ اپنے شوہر کی دوسری شادی پر اعتراض ہو گا، نہ خود کسی کی دوسری بیوی بننے پر۔
لیکن لیبیا کی سب خواتین اس رائے سے متفق نہیں ۔ایک خاتون کا کہناتھاکہ مجھے شریعت سے کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن ہمیں مردوں کو بغیر وجہ کے شادیاں کر نے اور اپنی پچھلی بیویوں کے حقوق بھلا دینے کا حق نہیں دینا چاہیے۔
دارالحکومت طرابلس کی ایک اور خاتون نے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا کہ مجھے دوسرے مردوں کے چار شادیوں پر اعتراض نہیں۔ لیکن میرے شوہر کی بات اور ہے۔ اگر میں بیمار ہوں اور اس کا خیال نہ رکھ پاؤں وہ الگ بات ہے۔ لیکن میں کسی دوسری صورت میں یہ برداشت نہ کروں۔
وکیل منال الدبر14 سال برطانیہ میں رہ چکی ہیں اور کہتی ہیں کہ مغربی ملکوں کو اسلام کے اس پہلو کی ضرورت سے زیادہ فکر ہے۔وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ مردوں کو اس کی اجازت دیں تو وہ اس سے دور بھاگیں گے۔
بعض مرد حضرات بھی ان سے متفق ہیں۔ طرابلس میں ایک شخص کا کہناتھا کہ ایک شادی کے ہی اتنے مسئلے ہوتے ہیں۔ ایک سے زیادہ شادیاں کرنا؟ ہم تو ایک ہی کر کے کہتے ہیں کہ بہت ہے۔ ایک سے زیادہ شادیوں کی مشکلات بھی بہت ہوتی ہیں۔
ایک اور شخص نے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا کہ ایک بیوی ہی کافی ہے۔
اس نظریے کے مخالفین کو فکر ہے کہ مردوں کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دینے سے خواتین کی آزادیوں پر زد پڑ سکتی ہے ۔ لیکن ماہر نفسیات ایمان فرہاد کو اس کی فکر نہیں۔ان کا کہناہے کہ میرے شوہر دوسری شادی کبھی نہیں کر سکتے ۔ لیکن اگرا یسا ہونا ہوا تو انہیں میری اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی ۔
ان کی بات شاید سب کو مطمئن نہ کرے۔
لیکن لیبیا میں آنے والی تبدیلیوں نے بہت سی خواتین میں اپنے ملک کے لئے زیادہ مفید کردار ادا کرنےکی خواہش پیدا کی ہے ۔ گھریلو خاتون سعاد الفطری اور ان کے علاقے کی بعض خواتین نے مل کر ایک تنظیم شروع کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم لیبیا کی خواتین کو زیادہ باصلاحیت بنانا چاہتے ہیں۔ مثلا انہیں کمپیوٹر کا استعمال اور انگریزی کی تعلیم دے کر ۔ جمہوریت معاشرے کے چھوٹے چھوٹے حصوں سے شروع ہوتی ہے، اور وہاں سے پھیلتی ہے۔
لیبیا کی آزادی کے جشن میں خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں ، لیکن اس ملک کی تعمیر نو کے کام میں خواتین کو کس حد شامل کیا جاسکتا ہے، اس سوال کا جواب سامنے آنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا ۔