پاکستان میں مسلم فیملی لاء آرڈیننس کے تحت شادی کے لئے لڑکی کی کم سے کم عمر سولہ سال ، جبکہ لڑکے کی اٹھارہ سال مقرر کی گئی تھی ، اور لڑکے اور لڑکی کی رضامندی حاصل کرنا ضروری قرار دیا گیا تھا ۔ پاکستان نے بچوں کے حقوق کے اقوام متحدہ کے کنونشن پر 1990ء میں دستخط کئے تھے ، جس کے تحت بچپن کی شادی پر پابندی ہے ۔لیکن پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی ملکوں میں اب بھی کم عمری میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج موجود ہے اور ایسا صرف ترقی پذیر ملکوں میں ہی نہیں ہو رہا ۔ حال ہی میں ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں اسی موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی ۔
یہ تجربہ دنیا کے کئی خطوں میں رہنے والی لڑکیوں میں ایک سا ہے ، جن کی مرضی معلوم کئے بغیر اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے شادی کر دی گئی ۔ بھارت سے تعلق رکھنے والی برطانیہ کی شہری جسویندر سنگھارانے یہ تجربہ اپنی بڑی بہنوں کے ساتھ دوہرائے جاتے دیکھا ہے ، جنہیں پندرہ سال کی عمر کو پہنچنے تک سکول سے نکال کر ایسے اجنبیوں سے بیاہا گیا ، جنہیں انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔
جسویندر کا کہنا ہے کہ میں چودہ سال کی تھی ، جب میری والدہ نے مجھے ایک شخص کی تصویر دکھا کر کہا کہ اس کے ساتھ تمہاری شادی آٹھ سال کی عمر میں طے کر دی گئی تھی ۔ مگر میں نے انکار کر دیا ۔
اپنی بہنوں کے بر عکس جسویندر نے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کوہی چھوڑ دیا ۔
سنگھارا نے اپنے ان تجربات پر ایک کتاب لکھی ہے ،اور وہ لوگوں کو بتا رہی ہیں کہ ترقی پذیر ملکوں میں ہی نہیں ترقی یافتہ ملکوں میں بھی روایتی سوچ کے حامی اب بھی جبری شادیوں کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں جنوبی ایشیا ءسے آکر آباد ہونے والے تارک وطن خاندانوں میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ کم عمر لڑکی کی شادی اپنے ملک کے کسی شخص سے اس لئے کر دی جائے تاکہ اسے برطانوی شہریت مل جائے گی ۔
پاکستان سمیت جنوبی ایشیا ، لاطینی امریکہ اور افریقی ملکوں میں ، جہاں ایسے رواج اب تک موجود ہیں ، ماہرین کے مطابق عزت اور غیرت کا تصور عورت ذات تک محدود کر نے کے باعث لڑکیوں کو کم عمری میں بیاہنے کی روایت اب تک ختم نہیں کی جا سکی ۔
چائلڈ فنڈ انٹرنیشنل سے منسلک این گاڈرڈ کا کہناہے کہ لوگوں کو اپنی لڑکیوں کی وجہ سے اپنی عزت خطرے میں پڑنے کے خدشات رہتے ہیں ،انہیں ڈر ہوتا ہے کہ لڑکی کوئی ایسی حرکت نہ کر دے جس سے خاندان کی بدنامی ہو ، تو اس کی شادی کرنا ہی بہتر ہے ۔
وہ کہتی ہیں کہ زیادہ تر معاشروں میں کم عمری میں لڑکیوں کی شادی کی ایک وجہ غربت ہوتی ہے ۔ اگر لڑکیوں کو لازمی تعلیم کے حصول تک بھی سکول میں رکھنا ممکن ہو تو جبری شادیوں کارواج ختم یا کم کیا جا سکتا ہے ۔ان کا یہ بھی کہناہے کہ جتنے سال لڑکی سکول میں گزارتی ہے ، اتنا ہی اس کی اور اس کی اولاد کی صحت اچھی ہوتی ہے ۔ لڑکیاں جتنی تعلیم حاصل کرتی ہیں ، اتنا ہی اپنے گھر کی آمدنی میں حصہ بٹاتی ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ اب افریقی ملکوں میں بھی ایسے پروگرام شروع کئے جا رہے ہیں ، جن کے تحت لڑکیوں کے لئے تعلیم جاری رکھنا ممکن ہوا ہے ۔
انٹرنیشنل سینٹر فار ریسرچ آن ویمن کی این وارنر کے مطابق حکومتوں اور بنیادی سطح کے مقامی اداروں کے درمیان تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے ، تاکہ وہ کم عمری کی جبری شادیوں کو روکنے کے لئے اپنے اب تک کئے گئے کام کو جاری رکھ سکیں ۔
جب کہ جسویندر سنگھار کا کہناہے کہ برطانیہ ہی نہیں دنیا کے کئی حصوں میں اب بھی کئی لڑکیوں کی مرضی کے بغیر شادی کر دی جاتی ہے اور اسے معمولی بات سمجھا جاتاہے۔ جسے روکنے کے لئے ان کے مطابق صرف والدین کوہی آگاہی دینا ضروری نہیں ، بلکہ لڑکیوں کو معاشی خودمختاری کے راہ پر ڈال کر ،انکار کی ہمت دینی بھی ضروری ہے ۔