امریکی فوجی قیادت کےایک بیان کے مطابق اتحادی فورسزکےفضائی حملوں کی مدد سے لیبیا میں نوفلائی زون قائم کردیا گیا ہے جس کی منظوری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دی تھی، اور اس ملک کے ایک اہم شہر بن غازی پر صدر قذافی کی وفادارا فواج کا دباؤ فی الحال کم ہوگیاہے۔ پیر کے روز چلی کے صدر کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران صدر اوباما نے کہا کہ اتحادی فورسز کی کارروائیوں کا مقصد لیبیا کے صدرمعمر قذافی کو ہٹانا نہیں ہے۔ اوراگلے چند دنوں میں لیبیا کے خلاف کارروائیوں کی کمان امریکہ کی جانب سے بین الاقوامی اتحاد کو منتقل کر دی جائے گی۔
امریکی عہدے داروں کے مطابق لیبیا میں صدر قذافی کے فضائی دفاع کے نظام کو نقصان بھی پہنچا ہے۔ افریقہ میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل کارٹر ہیم کہتے ہیں کہ میرے اندازے کے مطابق ہماری کارروائیاں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو رہی ہیں۔متحدہ فوجی کارروائیوں کے آغاز کے بعد ہم نے لیبیا کے فوجی جہازوں کو پرواز کرتے نہیں دیکھا ہے۔ لیبیا کے بحری جہاز یا تو بندرگاہوں کو لوٹ گئے ہیں یا وہاں سے نکلے ہی نہیں۔ان حملوں کے آغاز کے بعد ہمیں لیبیا کی حکومت کے ریڈار کی حرکت کا بھی کوئی نشان نہیں ملا ہے۔
جنرل ہیم نے کہا کہ فضائی حملوں کے نتیجے میں صدر قذافی کی فوج اب لیبیا کے شہر بن غازی کی طرف نہیں جارہی جو باغی گروپوں کے قبضے میں ہے۔ ان حملوں میں امریکہ نے اپنے کچھ سب سے بھاری ہتھیار استعمال کیے ہیں۔
لیکن امریکی محکمہ دفاع کے مطابق امریکہ آئندہ دنوں میں اپنی کارروائیاں محدود کر دے گا۔
فضائی حملوں کی مدد سے لیبیا کے شہر بن غازی میں موجود باغیوں کو حکومت کے حملوں سے کچھ سکون ملا۔ لیکن لیبیا کی حزب اختلاف کے مطابق لیبیا کے مغربی خطے میں واقع شہرمسراتا کے گرد حکومت کے فوجیوں کا گھیراو ہے اور بین الاقوامی فوج کی کارروائیوں سے بچنے کے لیے شہریوں کو انسانی ڈھالوں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کرائی جا سکی ہے۔
بین الاقوامی اتحاد کی فوجی کارروائیوں پر عرب ملکوں میں ملا جلا رد عمل ہے۔ عرب لیگ کے سربراہ امر موسیٰ نے اتوار کے روز کہا کہ یہ فوجی کارروائیاں ان کی توقعات سے زیادہ شدید ہیں۔ لیکن پیر کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بن کی مون سے ایک ملاقات کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ کی لیبیا میں نوفلائی زون کے قیام کے لیے قرارداد کی حمایت کی۔
ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ میں پھر لیبیا کے حکام کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادپر عمل کریں ، لڑائی ختم کریں اور شہریوں کومارنا چھوڑ دیں۔
لیبیا میں نوفلائی زون قائم کرنے کےلیے بین الاقوامی اتحاد میں شامل ملکوں کے خلاف لیبیا کے صدر معمر قذافی کے رد عمل پر بھی بحث جاری ہے۔
لیبیا اپنے مخالفین کے خلاف دہشت گرد حملوں کا پہلے سہارا لے چکا ہے۔ 1988ءمیں سکالٹ لینڈ کے شہر لاکربی پر پرواز کرتے ہوئے پین ایم کی ایک پرواز میں دھماکا ہوا تھا۔ اس حملے میں 189 امریکی ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے سے دو سال قبل ہی جرمنی میں ایک کلب میں دھماکا ہو تھا جہاں امریکی فوجیوں کا آنا جانا رہتا تھا۔ اس حملے میں دو امریکی فوجی مارے گئے تھے۔ لیبیا نے دونوں واقعات کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
لیکن امریکی انٹیلی جنس کے ایک سابق عہدے دار کہتےہیں گو اس وقت صدر قذافی کے پاس ایسے حملے کا بہانہ ہے، لیکن ان کے پاس ضروری وسائل نہیں ۔
امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی اتحاد لیبیا پر نوفلائی زون برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ لیبیا کی حکومت اپنے شہریوں پر مزید حملے نہ کرسکے، اور قذافی ان حملوں کا نشانہ نہیں۔