صدر براک اوبامہ نے لیبیا کے رہنما معمر قذافی کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں پر حملے کرنا بند کر دیں ورنہ امریکہ کی مدد سے نافذ کیے جانے والے ’نو فلائی زون‘ کا سامنا کرنے کے ليے تیار ہو جائے ۔ البتہ، وائٹ ہاوٴس سے ’وائس آف امریکہ ‘کے کینٹ کلائن کی رپورٹ کے مطابق صدر نے کہا ہے کہ امریکہ لیبیا میں زمینی فوج نہیں بھیجے گا ۔
صدر اوبامہ نے کہا ہے کہ اگر لیبیا کی حکومت نے شہریوں پر فوجی حملے جاری رکھے تو اُن کے خلاف ’نو فلای زون ‘نافذ کرنے میں امریکہ مشرق وسطٰی اور یورپی ممالک کی مدد کرے گا ۔ مسٹر اوبامہ نے برہمی سے کہا کہ معمر قذافی نے اپنے عوام کو ظالمانہ طریقے سے دبانے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی یہ عیاں کر دیا ہے کہ وہ ایسا کرنا جاری رکھیں گے ۔
اُن کے الفاظ میں: ’صرف کل ہی بن غازی شہر کے بارے میں بات کرتے ہوئے، جہاں سات لاکھ کی آبادی ہے ،اُنھوں نے دھمکی دی اور میں اُن کے الفاظ دہراتا ہوں کہ ہم کسی پر رحم یا ترس نہیں کھائیں گے ۔ اپنے ہی عوام پر یہ بے رحمی ؟‘
صدر اوبامہ نے کہا کہ اگر لیبیا کی عوام کے خلاف قذافی کے تشدد کو نہ روکا گیا تو اُس کے اثرات پورے مشرق وسطی کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے ۔
صدر نے کہا کہ، ’اگر اس صورت حال کو ایسے ہی جاری رہنے دیا گیا تو یہ یقین کرنے کی ہر ممکن وجہ موجود ہے کہ قذافی اپنے ہی لوگوں پر مظالم کریں گے ، ہزاروں لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں اورانسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے ۔ اس سے پورا علاقہ غیر مستحکم ہو سکتا ہے اور ہمارے اتحادی اور ساجھے دارخطرے میں پڑ سکتے ہیں ۔ لیبیا کی عوام نے جو مدد کی درخواست کی ہے وہ ضرور سنی جائے گی۔‘
یہ بیان صدر اوبامہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے اُس قرارداد کی منظوری کے بعد دیا ہے جِس میں لیبیا میں عام شہریوں پرلیبیا کی فوج کے حملوں کو روکنے کے لیےضروری کارروائی کی اجازت دی گئی ہے ۔
کچھ امریکی الزام عائد کر رہے ہیں کہ صدر ااوبامہ نے لیبیا کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اقدامات لینے میں تاخیر سے کام لیا ۔ تاہم صدر نے کہا کہ امریکہ اور دوسرے ممالک نے لیبیا کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں اور پناہ گزینوں کے کسی بحران سے نمٹنے کے ليے ہمسایہ ممالک میں فلاحی امداد بھی بھیجی ہے تاکہ وہاں پہنچنے والے پناہ گزینوں کی مدد کی جا سکے ۔
صدر اوبامہ نے اِن مطالبات کے بارے میں بھی بات کی جو امریکہ ، فرانس، برطانیہ اور کئی عرب ممالک معمر قذافی سے کر رہے ہیں جِن میں فوری جنگ بندی بھی شامل ہے ۔
اُن کے بقول،’ اِس کا مطلب ہے کہ شہریوں پر ہر قسم کے حملے بند ہونے چاہئیں ، قذافی کو اپنی افواج کی بن غازی پر چڑھائی کو روکنا ہوگا، فوج کو ادابیہ، مستراتا اور زاویہ سے واپس بلانا ہوگا اور تمام علاقوں میں پانی ، بجلی اور گیس کی سپلائی کو بحا ل کرنا ہوگا ۔ اور میں یہ واضع کر دوں کے اِن شرائط پر کوئی مذاکرات نہیں ہونگے۔‘
مسٹر اوبامہ نے کہا کہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سنیچر کو پیرس پہنچیں گی تاکہ اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ اقوام متحدہ کی قرارداد کے نفاذ کے بارے میں بات چیت کریں ۔ صدرنے یہ نہیں بتایا کہ فوجی کارروائی میں امریکہ کا کیا کردار ہوگا ۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکی فورسز’ نو فلاي زون‘ کے نفاذ میں دوسرے ممالک کی مدد کریں گی، تاہم اُنھوں نے یہ بات ز ور دے کہ کہی کہ امریکی بری فوجیں لیبیاپر حملہ نہیں کریں گی ۔
صدر کے الفاظ میں ’امریکہ لیبیا میں زمینی فوج تعینات نہیں کرے گا اور ہم واضع طور پر بیان کردہ ہدف سے زیادہ طاقت استعمال نہیں کریں گےاور وہ ہے لیبیا کے عام شہریوں کی حفاظت ‘۔
اِس اعلان سے پہلے اُنھوں نے اِس مسئلے پر بات کرنے کے ليے امریکی کانگریس میں دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنماوٴں سے ملاقات کی ۔
اِس سے پہلے صدر اوبامہ نے یمن میں ہونے والے تشدد کی بھی مذمت کی جہاں جمعے کو حکومتی اہلکاروں کے ایک مجمعے پر فائرنگ سے چالیس افراد ہلاک ہو گئے ۔ یہ لوگ صدر عبداللہ صالح سے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ایک تحریری بیان میں اوبامہ نے صدر صالح سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی عوام کو پر امن مظاہروں کی اجازت دینے کے اپنے وعدے کو پورا کریں ۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ جمعے کو ہونے والے تشدد کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے ۔
سمیرہ اسلم کی زبانی آڈیو رپورٹ سنیئے: