لیبیا کے لیڈر معمر قذافی نے کہا ہے کہ حکومت مخالف احتجاجوں کےباعث وہ ملک چھوڑکر کہیں نہیں جائیں گے،اور یہ کہ وہ لیبیا میں شہید ہوں گے۔
قذافی نے منگل کو ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک لیبیا کے سرکاری ٹیلی ویژن پر تقریر کی۔ جب سے احتجاج کا سلسلہ چلا ہے یہ اُن کی پہلی تفصیلی تقریر تھی۔
اپنے آپ کو ’ انقلابی ‘ قرار دیتے ہوئے مسٹر قذافی نے اپنے حامیوں پر زور دیا کہ وہ لیبیا کا دفاع کرنے میں اُن کی مدد کریں ، اوراُن کے بقول، وہ جو لوگ عوام میں بے چینی کو ہوا دے رہے ہیں وہ ایک مخصوص ’ٹولہ‘ یا ’دہشت گرد‘ ہیں۔
ایک نکتے پر مسٹر قذافی نے ایک سبز کتاب لہرائی جو اُن کے سیاسی فلسفے سے متعلق کتاب لگ رہی تھی جو اُنھوں نے شمال افریقی ملک میں اقتدار سنبھالنے کے بعد 1970ء کی دہائی میں تحریر کی تھی۔ ایک ہاتھ میں کتاب لہراتے ہوئے اُنھوں نے دھمکی دی کہ جوبھی لیبیا کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوگا یا مخبری میں ملوث پایا گیا اُسے موت کی سزاسنائی جائے گی۔
لیبیائی لیڈر نے کہا کہ وہ اُسی گھر سے تقریر کر رہے ہیں جس پر امریکہ اور برطانیہ نے بمباری کی تھی، جو 1980ء کے عشرے میں ہونے والےہوائی حملوں کی طرف ایک واضح اشارہ تھا۔
لیبیا کی صورتِ حال پر غور کرنے کے لیے منگل کی شام نیو یارک میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل ایک خصوصی اجلاس منعقد کر رہی ہیں۔
عینی شاہدین نے طرابلس سے بتایا ہے کہ پیر کے روز لیبیا ئی ہیلی کاپٹروں اور جنگی جہازوں نے شہری علاقوں پر حملے کیے، جب کہ افریقی کرائے کے قاتلوں اور قذافی کے حمایتی مسلح افراد نے لوگوں میں دہشت پیدا کرنے کی غرض سے اندھادھند گولیاں چلائیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے منگل کے دِن کہا کہ اُسے موصول ہونے والی خبروں سے پتا چلتا ہے کہ اتوار کے روزسے طرابلس میں کم از کم 62افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اتوار کو ہی امریکہ میں قائم انسانی حقوق کے علمبردار ادارے نے بتایا تھا کہ ابتدائی خبروں کے مطا بق لیبیا بھر میں مظاہرین کے خلاف کی گئی کارروائی کے دوران اب تک مرنے والوں کی تعاد 233ہوگئی ہے، جِس میں سے زیادہ تر اموات ملک کے مشرقی صوبوں میں واقع ہوئی ہیں۔
امریکی صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے منگل کے روز ہلاک ہونے والوں کےلیے تعزیت کا اظہار کیا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے اپنے لوگوں کے خلاف ’دہشتناک تشدد‘ کرنے پر لیبیائی اہل کاروں کی مذمت کی ہے۔