رسائی کے لنکس

معمر قذافی کے بعد لیبیا کا ممکنہ مستقبل


معمر قذافی کے بعد لیبیا کا ممکنہ مستقبل
معمر قذافی کے بعد لیبیا کا ممکنہ مستقبل

مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ہنگامے جاری ہیں اور مصر اور تیونس میں حکومتوں کا تختہ الٹا جا چکا ہے۔ تاہم ان دونوں ملکوں میں لیڈروں کے زوال کے بعد بھی استحکام اور سیکورٹی برقرار ہے۔ لیکن اگر معمر قذافی کو اقتدار چھوڑنا پڑا تو لیبیا میں تیونس اور مصر جیسے حالات نہیں ہوں گے۔

معمر قذافی لیبیا پر 1969 سے حکومت کر رہے ہیں۔ یہ ہر لحاظ سے بہت طویل عرصہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اتنے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے بعد ان کا تختہ الٹ دیا گیا تو پھر کیا ہوگا؟ مصر اور تیونس جیسے ملکوں میں جہاں عوام کی طاقت کی وجہ سے حکمرانوں کو اقتدار چھوڑنا پڑا، فوج نے خلا کو پُر کیا اور ملک میں سلامتی اور استحکام قائم رکھا۔

لیکن انٹیلی جنس کی پرائیویٹ فرم سٹارٹفار کے کامران بخاری کہتے ہیں کہ قذافی نے فوج کو کمزور رکھا کیوں کہ انہیں ڈر تھا کہ وہ ان کے اقتدار کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ ’’ قذافی کے دورِ اقتدار میں فوج کو ایک خود مختار ادارہ بننے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ہر چیز قذافی ان کے گھرانے اور دوستوں کے گرد گھومتی تھی۔ بلکہ گھرانے اور دوستوں کا بھی کیا ذکر صرف قذافی کی ذات اہم تھی۔ یہ کوئی ایک پارٹی کی حکومت والا ملک بھی نہیں تھا بلکہ اس پر صرف ایک فرد کی حکمرانی تھی‘‘۔

مصنف اور لیبیا کے امور کے ماہر رونلڈ بریوس جان کا خیال ہے کہ قذافی کے جانے کے بعد کچھ ہنگامہ آرائی تو ہوگی لیکن بھر پور خانہ جنگی کا امکان نہیں ہے۔’’ میری پیشگوئی یہ ہے کہ کچھ عرصے بے یقینی کی کیفیت رہے گی لیکن امید یہی ہے کہ خانہ جنگی نہیں ہوگی۔ سول وار کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ لیبیا قبائلی معاشرہ ہے اور مجھے امید ہے کہ لیبیا میں قبائلی قیادت آگے بڑھے گی اور مل جل کر کام کرنے کا کوئی طریقہ نکالے گی اور ملک کے لیے زیادہ موئثر نظامِ حکومت تیار کرے گی‘‘۔
لیکن یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ قبائل کس حد تک منظم اور متحد ہو سکیں گے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ قذافی نے لیبیا کے بہت سے قبائل کو کمزور کرنے یا انہیں خریدنے کی کوشش کی کیوں کہ وہ ان کے اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔

لندن میں قائم سیاسی مشاورت کی فرم مینس (Menas) کے مینیجنگ ڈائریکٹر چارلس گرڈون کہتے ہیں کہ قذافی نے اپنی اقتصادی پالیسیوں سے ملک کے مشرقی حصے کو ناراض کردیا۔ ’’ناراضگی اس بات پر ہے کہ ترقیاتی سرگرمیوں کا تمام پیسہ ملک کے مغربی اور وسطی حصے پر خرچ کر دیا گیا اور مشرقی حصے کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس وجہ سے ان دونوں حصوں کے درمیان کچھ عرصے سے خاصی دشمنی ہے۔ تا ہم میرے خیال میں لیبیا کے لوگوں کی بہت بڑی اکثریت چاہتی ہے کہ قذافی اقتدار چھوڑ دیں۔ اس کے علاوہ اب لوگوں کی شناخت لیبیا ہے اور امید یہی ہے کہ یہ پہچان علاقائیت یا قبائلیت سے زیادہ مضبوط ہو گی‘‘۔

کامران بخاری کے خیال میں یہ امکان بھی ہے کہ لیبیا چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جائے اور مختلف سردار بحرِروم کے ساحل کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو کنٹرول کرنے لگیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایک اور زیادہ پریشان کن امکان یہ ہے کہ لیبین اسلامک فائیٹنگ گروپ (Libyan Islamic Fighting Group) یا LIFG اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرے۔ ’’یہ منظر نامہ واقعی پریشان کُن ہے ۔ کیا LIFG ہمسایہ ملک الجزائر میں القاعدہ کے ساتھ مل کر اس ملک میں انارکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہادیوں کے ٹھکانے قائم کر سکتی ہے جہاں وہ اپنی توانائی بحال کر سکتے ہیں اور اپنے اڈے قائم کر سکتے ہیں‘‘۔

مینس کے چارلس گورڈن کہتے ہیں کہ قذافی کے بعد کے لیبیا میں LIFG اور اسلامی انتہا پسندی کا خطرہ بہت کم ہے۔’’لیبیا میں صوفی اعتدال پسند اسلام پر عمل کیا جاتا ہے۔ سماجی طور پر لیبیا قدامت پسند ملک ہے۔ وہ عسکریت پسند سنیوں یا شیعہ مسلمانوں کا ملک نہیں ہے۔ اس لیئے یہ خیال کہ وہاں کوئی اسلامی خلیفہ یا امیر، اسلامی حکومت قائم کر لیں گے، احمقانہ ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہو گا۔ لیبیا قدامت پسند ملک ہے اور وہاں شاید اسلام کا کافی اثر ہوگا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ وہا ں کوئی اسلامی مملکت قائم ہو سکتی ہے‘‘۔

اپنی بعض بے سرو پا تقریروں میں مسٹر قذافی نے اپنے ملک میں بے چینی کا الزام، القاعدہ سمیت، بہت سے گروپوں پر عائد کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG