برطانوی قانون سازوں کے ایک گروپ نے سنہ 2011 میں برطانیہ اور فرانس کی جانب سے لیبیا میں مداخلت پر سخت نکتہ چینی کی ہے جس کے نتیجے میں لیبیا کے رہنما معمر قذافی کو ہٹایا گیا۔
برطانوی پالیمان کی امور خارجہ کی ’سیلیکٹ کمیٹی‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کایا پلٹ کے بعد کی کوئی منصوبہ بندی کی عدم موجودگی کا مطلب یہ ہوا کہ لیبیا تیزی سے افراتفری کی جانب بڑھتا گیا، جب متحارب میلیشیائیں اقتدار کی لڑائی میں مصروف رہیں اور داعش کے دہشت گرد گروپ نے ملک میں قدم جمانے کی کوششیں تیز کردیں۔
واشنگٹن میں محکمہٴ خارجہ نے کہا ہے کہ قذافی کے ہٹنے کے بعد، عمل داری کی خلا کے نتیجے میں بے ضابطگی کی راہ ہموار ہوئی۔
محکمہٴ خارجہ کے معاون ترجمان، مارک ٹونر نے جمعرات کے روز بتایا کہ ’’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ قذافی کی فوری تنزلی کے بعد لیبیا کو محفوظ بنانے کے لیے درکار کام نہیں ہوا، جس سے نئی حکومت اپنی قدموں پر کھڑی ہو سکے‘‘۔
تاہم، ٹونر نے کہا کہ تب سے قومی مفاہمت پر مبنی حکومت بنانے پر دھیان مبذول رہا، لیکن یہ توقعات بھی کی جاتی رہیں کہ وہ داعش سے درپیش خطرات کا مقابلہ کرسکے گی، اور لیبیا میں اختیارات کو مستحکم شکل دی جائے گی۔
اس فیصلے سے بالکل پانچ برس قبل اُس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور سابق فرانسیسی صدر نکولس سارکوزی ستمبر 2011ء میں بن غازی کے لبرٹی اسکوائر میں فاتحانہ انداز میں کھڑے تھے، جب کہ لوگوں کی بھیڑ نعرے لگا رہی تھی۔ اُن کے مشترکہ فضائی اور میزائل حملوں کے نتیجے میں مطلق العنان قذافی کو ہٹایا گیا۔
لیبیا کے رہنما نے باغیوں کے زیر قبضہ شہر، بن غازی پر حملے کی دھمکی دے رکھی تھی۔
تاہم، رپورٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ برطانیہ اور فرانس نے شہریوں کو لاحق خطرے کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا۔
قانون دان، کرسپن بلنٹ، اس کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’’یہاں فیصلہ کرنے والوں کو خونریزی پر مبنی جائزہ پیش کیا جا رہا تھا کہ بن غازی میں کیا کچھ ہونے والا ہے، جس کے وجہ سے اقدام کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے ماضی کی ناکامی فوری فیصلے کا موجب بنی۔