لیبیا میں جاری کشمکش کی وجہ سے دنیا کی توجہ اقوامِ متحدہ کے ایک نظریے پر مرکوز ہوئی ہے جسے حفاظت کی ذمہ داری کہا جاتا ہے۔
حفاظت کی ذمہ داری نسبتاً نیا تصور ہے۔ جارڈ جسنر ایک وکیل ہیں جنھوں نے اس موضوع پر ایک کتاب کی تدوین کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ نظریہ اقوامِ متحدہ کی عالمی سربراہ کانفرنس میں 2005ء میں منظور کیا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ تمام ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آبادی کو بڑے پیمانے پر مظالم سے بچائیں۔ جن مظالم کا ذکر کیا گیا ہے ان میں نسل کشی، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسلی تطہیر شامل ہیں‘‘۔
15 فروری کو لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہو گئے۔ انھوں نے جواب میں زبردست طاقت استعمال کی یہاں تک کہ سویلین آبادی پر ائیر فورس کے جہازوں سے حملے کیے۔
گیارہ دن کے بعد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے حفاظت کی ذمہ داری کے اصول کا استعمال کرتے ہوئے قذافی حکومت کے خلاف سخت اقدامات کیے۔ جسنر کہتے ہیں کہ ’’سلامتی کونسل کی قرار داد کے تحت جو متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے معمر قذافی اور ان کے حواریوں پر بینکاری اور مالیاتی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ لیبیا کو اسلحہ فروخت کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کے لیے اسلحہ خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔ ان کے معاملے کو انسانیت کے خلاف اور جنگی جرائم کی تفتیش کے لیے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے حوالے کر دیا گیا ہے‘‘۔
جسنرکہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ سلامتی کونسل نےکسی مخصوص ملک کے خلاف اس نظریے کو استعمال کیا ہے۔ لیکن اس دستاویز کی منظوری کے بعد کرنل قذافی کی فوج مسلسل باغی فورسز سے علاقہ واپس لے رہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ باغیوں کی حالت روز بروز نازک ہوتی جا رہی ہے ۔ ’’قذافی اور ان کی حکومت کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ان پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کو جو ریفرل بھیجا گیا ہے اس کے اثرات کچھ دن بعد ضرور ظاہر ہوں گے، لیکن فی الحال ان کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے اور نہ سویلین آبادی کو کوئی مدد مل رہی ہے جن پر قذافی نے فوج کواور ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو جھونک دیا ہے‘‘۔
ہیومین رائٹس واچ کے فرڑ ابراہم کے مطابق لیبیا میں حالات انتہائی خراب ہو گئے ہیں۔ ’’ہم نے دارالحکومت طرابلس میں حکومت کی کارروائی کو ریکارڈ کیا ہے۔ وہاں گرفتاریوں اور لوگوں کے لاپتا ہونے کی لہر آئی ہوئی ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں سے سینکڑوں لوگ لا پتا ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہیں۔ ان لوگوں کی سلامتی کے بارے میں تشویش کی وجہ موجود ہے کیوں کہ لیبیا میں اذیت رسانی اور سیاسی قتل کی روایت موجود ہے‘‘۔
ابراہم کہتے ہیں کہ طرابلس میں لوگ سخت خوفزدہ ہیں۔’’جو لوگ پہلے ہم سے ٹیلیفون پر بات کرتے تھے وہ اب کہہ دیتے ہیں کہ وہ اب بات نہیں کر سکتے یا وہ ٹیلیفون کا جواب ہی نہیں دیتے۔ بعض لوگوں نے تو حکومت کی تعریف شروع کر دی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حکومت پر تنقید کیا کرتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماحول میں کس قدر خوف و دہشت موجود ہے‘‘۔
بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ اقوامِ متحدہ کی موجودہ قرارداد جس میں حفاظت کی ذمہ داری کا حوالہ دیا گیا ہے، خاصی سخت ہے، لیکن یہ موجودہ حالات میں کافی نہیں۔ بعض تجزیہ کار جیسے جارڈ جسنر کہتے ہیں کہ ایک نئی قرارداد ضروری ہے جس میں بین الاقوامی انتظام میں نو فلائی زون قائم کیا جائے۔
لیکن بعض دوسرے لوگ جیسے فرڈ ابراہم کا خیال ہے کہ جب تک روس اور چین جو نو فلائی زون کے خلاف ہیں، اپنا ارادہ نہیں بدلتے، بین الاقوامی سطح پر اتفاقِ رائے ممکن نہیں ہے ۔ یہ دونوں ملک سلامتی کونسل کے مستقل ارکان ہیں اور انہیں کونسل کی قرار داد کو ویٹو کرنے کا حق حاصل ہے۔