کچھ تجزیہ کاروں نے انتباہ کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اس معاملے میں مداخلت کی تو اس کے نتائج لیبیا کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔
قاہرہ —
کہا جاتا ہے کہ گذشتہ مہینے لیبیا میں قونصل خانے کے کمپاؤنڈ پر حملے کے جواب میں، امریکہ فوجی حملہ کرنے کے نشیب و فراز پر غور کر رہا ہے۔ لیکن لیبیا میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ملک میں داخلی اصلاحات ضروری ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ باہر سے کسی کارروائی کے نتیجے میں ان لوگوں کے ہاتھ اور زیادہ مضبوط ہوں گے جن کا زور توڑنا مقصود ہے۔
اعلیٰ امریکی عہدے داروں نے میڈیا سے کہا ہے کہ انتظامیہ لیبیا میں ان لوگوں کے خلاف فوجی کارروائی کے بارے میں غور کر رہی ہے جن کے بارے میں یہ پتہ چلے گا کہ وہ بن غازی میں 11 ستمبر کو امریکی مشن پر حملے کے ذمہ دار تھے۔
اس سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ ان لوگوں کی نشاندہی ہے جنھوں نے وہ حملہ کیا جس میں امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیونز اور قونصل خانے کے عملے کے تین دوسرے ارکان ہلاک ہو ئے۔
اس کیس میں سب سے زیادہ شبہ عسکریت پسند انصار الشریعہ ملیشیا پر ظاہر کیا جا رہا ہے لیکن اس گروپ نے اس واقعے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے، اگرچہ بعض عینی شاہدین نے ان کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے ۔ اس جیسی درجنوں ملیشیائیں پورے لیبیا میں سرگرم ہیں اور حکومت کا ان پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
لیکن کچھ تجزیہ کاروں نے انتباہ کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اس معاملے میں مداخلت کی تو اس کے نتائج لیبیا کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ گذشتہ سال کی حکومت مخالف تحریک کے دوران حزبِ اختلاف کے ترجمان مصطفیٰ غیریانی کہتے ہیں کہ انصاف کے جو بھی تقاضے ہیں، وہ لیبیا کو خود پورے کرنے چاہئیں۔’’اگر آپ ایسا ملک بننا چاہتے ہیں جہاں قانون کو اولیت حاصل ہو، اور آپ افغانستان یا پاکستان جیسے حالات نہیں چاہتے،تو ہمیں تمام معاملات میں ضابطوں کی پابندی کرنی چاہیئے۔ ممکن ہے کہ اس میں کچھ زیادہ وقت لگے، لیکن ہمیں اس وقت کوئی خلاف ِ عقل بات نہیں کرنی چاہیئے۔‘‘
کمپاؤنڈ پر حملے کو امریکہ کی صدارتی انتخاب کی مہم میں نمایاں جگہ مل رہی ہے اور یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ امریکہ جلد ہی کوئی کارروائی کر سکتا ہے۔ لیکن لیبیا میں امریکہ کے لمبی مدت کے منصوبے بھی ہیں ۔ ان میں لیبیا کی فوج میں ایک ایسے گروپ کی تربیت بھی شامل ہے جو ملیشیاؤں کو قابو میں رکھ سکے۔
قاہرہ کی امریکی یونیورسٹی کے سیاسی تجزیہ کار سعید صادق کہتے ہیں کہ اس اقدام میں ایک خطرہ یہ ہے کہ اس سے لیبیا کی حکومت کے امریکہ کی کٹھ پتلی ہونے کا تاثر مل سکتا ہے۔ اس سے نیٹو کے مشن کے ایک بنیادی نکتے کی بھی نفی ہوگی جس کی مدد سے یہ نئی حکومت بر سرِ اقتدار آئی ہے، وہ نکتہ ہے غیر ملکی فوجوں کو لیبیا کی سر زمین سے دور رکھنا۔
صادق کہتے ہیں کہ زیادہ تیز اور عملی حل یہ ہو گا کہ مختلف ملیشیاؤں کو انتہا پسندوں کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی جائے۔
یہ وہ طریقہ ہے جسے بیداری کا نام دیا گیا تھا اور جسے امریکہ نے عراق میں آزمایا تھا۔’’ایک ایسی پیشہ ورانہ فورس تیار کرنے میں جو ملک میں کارروائی کرنے اور استحکام لانے کے لیے تیار ہو، بہت وقت لگے گا۔ لہٰذا ، کم مدت میں ہمارے پاس صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم عراق کا تجربہ دہرائیں اور مختلف ملیشیاؤں کو متحد کریں اور لیبیا میں انہیں استعمال کرنے کی کوشش کریں۔‘‘
لیبیا کے نامزد وزیرِ اعظم نے سیکورٹی کے مسئلے کو حل کرنے کا عہد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
’’علی زیدان نے اس ہفتے کے شروع میں کہا کہ اہم ترین بات یہ ہو گی کہ اس حکومت میں تمام پارٹیوں کے لوگ شامل ہوں۔ لیکن لیبیا کے جمہوری مستقبل کو صرف اسلامی ملیشیاؤں سے ہی خطرہ نہیں ہے۔‘‘
بدھ کے روز ہیومن رائٹس واچ نے ایسے شواہد پیش کیے جن میں دکھایا گیا تھا کہ معزول لیڈر معمر قذافی کے ساتھ جن لوگوں کو پکڑا گیا تھا، باغی ملیشیاؤں نے ان کا قتلِ عام کر دیا۔
ہیومن رائٹس واچ کے ہنگامی حالات کے ڈائریکٹر پیٹر بوکٹریٹ نے کہا ہے کہ لیبیا کی حکومت کے ان وعدوں کے باوجود کہ ان واقعات کی تفتیش کی جائے گی، ایسی کوئی علامات نہیں ملی ہیں کہ اس سلسلے میں کچھ کیا گیا ہے۔
’’ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ تمام مختلف ملیشیاؤں کو ایک مرکزی کنٹرول کے تحت لایا جائے تا کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہ کر سکیں، اور اگر کوئی سنگین خلاف ورزی ہو، تو اس کی جوابدہی کی جائے۔ انھوں نے ایک بہتر لیبیا کے لیے جنگ کی جس میں لوگ سیکورٹی کی حالت میں، اور اس خوف و دہشت سے محفوظ رہ سکیں جو انہیں قذافی کے دور میں برداشت کرنا پڑا تھا۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ انقلاب کے بعد، جو سب سے بڑا چیلنج در پیش ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بندوق کے زور پر حکومت کے بجائے قانون کی حکمرانی کیسے قائم کی جائے ۔
قذافی کے انتقال کے ایک سال بعد، یہ چیلنج اب بھی باقی ہے۔
اعلیٰ امریکی عہدے داروں نے میڈیا سے کہا ہے کہ انتظامیہ لیبیا میں ان لوگوں کے خلاف فوجی کارروائی کے بارے میں غور کر رہی ہے جن کے بارے میں یہ پتہ چلے گا کہ وہ بن غازی میں 11 ستمبر کو امریکی مشن پر حملے کے ذمہ دار تھے۔
اس سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ ان لوگوں کی نشاندہی ہے جنھوں نے وہ حملہ کیا جس میں امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیونز اور قونصل خانے کے عملے کے تین دوسرے ارکان ہلاک ہو ئے۔
اس کیس میں سب سے زیادہ شبہ عسکریت پسند انصار الشریعہ ملیشیا پر ظاہر کیا جا رہا ہے لیکن اس گروپ نے اس واقعے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے، اگرچہ بعض عینی شاہدین نے ان کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے ۔ اس جیسی درجنوں ملیشیائیں پورے لیبیا میں سرگرم ہیں اور حکومت کا ان پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
لیکن کچھ تجزیہ کاروں نے انتباہ کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اس معاملے میں مداخلت کی تو اس کے نتائج لیبیا کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ گذشتہ سال کی حکومت مخالف تحریک کے دوران حزبِ اختلاف کے ترجمان مصطفیٰ غیریانی کہتے ہیں کہ انصاف کے جو بھی تقاضے ہیں، وہ لیبیا کو خود پورے کرنے چاہئیں۔’’اگر آپ ایسا ملک بننا چاہتے ہیں جہاں قانون کو اولیت حاصل ہو، اور آپ افغانستان یا پاکستان جیسے حالات نہیں چاہتے،تو ہمیں تمام معاملات میں ضابطوں کی پابندی کرنی چاہیئے۔ ممکن ہے کہ اس میں کچھ زیادہ وقت لگے، لیکن ہمیں اس وقت کوئی خلاف ِ عقل بات نہیں کرنی چاہیئے۔‘‘
کمپاؤنڈ پر حملے کو امریکہ کی صدارتی انتخاب کی مہم میں نمایاں جگہ مل رہی ہے اور یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ امریکہ جلد ہی کوئی کارروائی کر سکتا ہے۔ لیکن لیبیا میں امریکہ کے لمبی مدت کے منصوبے بھی ہیں ۔ ان میں لیبیا کی فوج میں ایک ایسے گروپ کی تربیت بھی شامل ہے جو ملیشیاؤں کو قابو میں رکھ سکے۔
قاہرہ کی امریکی یونیورسٹی کے سیاسی تجزیہ کار سعید صادق کہتے ہیں کہ اس اقدام میں ایک خطرہ یہ ہے کہ اس سے لیبیا کی حکومت کے امریکہ کی کٹھ پتلی ہونے کا تاثر مل سکتا ہے۔ اس سے نیٹو کے مشن کے ایک بنیادی نکتے کی بھی نفی ہوگی جس کی مدد سے یہ نئی حکومت بر سرِ اقتدار آئی ہے، وہ نکتہ ہے غیر ملکی فوجوں کو لیبیا کی سر زمین سے دور رکھنا۔
صادق کہتے ہیں کہ زیادہ تیز اور عملی حل یہ ہو گا کہ مختلف ملیشیاؤں کو انتہا پسندوں کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی جائے۔
یہ وہ طریقہ ہے جسے بیداری کا نام دیا گیا تھا اور جسے امریکہ نے عراق میں آزمایا تھا۔’’ایک ایسی پیشہ ورانہ فورس تیار کرنے میں جو ملک میں کارروائی کرنے اور استحکام لانے کے لیے تیار ہو، بہت وقت لگے گا۔ لہٰذا ، کم مدت میں ہمارے پاس صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم عراق کا تجربہ دہرائیں اور مختلف ملیشیاؤں کو متحد کریں اور لیبیا میں انہیں استعمال کرنے کی کوشش کریں۔‘‘
لیبیا کے نامزد وزیرِ اعظم نے سیکورٹی کے مسئلے کو حل کرنے کا عہد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
’’علی زیدان نے اس ہفتے کے شروع میں کہا کہ اہم ترین بات یہ ہو گی کہ اس حکومت میں تمام پارٹیوں کے لوگ شامل ہوں۔ لیکن لیبیا کے جمہوری مستقبل کو صرف اسلامی ملیشیاؤں سے ہی خطرہ نہیں ہے۔‘‘
بدھ کے روز ہیومن رائٹس واچ نے ایسے شواہد پیش کیے جن میں دکھایا گیا تھا کہ معزول لیڈر معمر قذافی کے ساتھ جن لوگوں کو پکڑا گیا تھا، باغی ملیشیاؤں نے ان کا قتلِ عام کر دیا۔
ہیومن رائٹس واچ کے ہنگامی حالات کے ڈائریکٹر پیٹر بوکٹریٹ نے کہا ہے کہ لیبیا کی حکومت کے ان وعدوں کے باوجود کہ ان واقعات کی تفتیش کی جائے گی، ایسی کوئی علامات نہیں ملی ہیں کہ اس سلسلے میں کچھ کیا گیا ہے۔
’’ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ تمام مختلف ملیشیاؤں کو ایک مرکزی کنٹرول کے تحت لایا جائے تا کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہ کر سکیں، اور اگر کوئی سنگین خلاف ورزی ہو، تو اس کی جوابدہی کی جائے۔ انھوں نے ایک بہتر لیبیا کے لیے جنگ کی جس میں لوگ سیکورٹی کی حالت میں، اور اس خوف و دہشت سے محفوظ رہ سکیں جو انہیں قذافی کے دور میں برداشت کرنا پڑا تھا۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ انقلاب کے بعد، جو سب سے بڑا چیلنج در پیش ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بندوق کے زور پر حکومت کے بجائے قانون کی حکمرانی کیسے قائم کی جائے ۔
قذافی کے انتقال کے ایک سال بعد، یہ چیلنج اب بھی باقی ہے۔