ایک بین الاقوامی پراسیکیوٹر بدھ کے روز اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کو اس بارے میں بریفنگ دیں گے کہ آیا لیبیا کی حکومت کے ارکان جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں یا نہیں۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر لوئس مورینو اوکامپو نے لیبیا کے اپنے ایک حالیہ دورے میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں فروری میں حکومت مخالف تحریک کے آغاز کے بعد جنگی جرائم کے واقعات ہوئے ہیں۔
اوکامپو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوٹر کا اگلا اقدام ججوں سے یہ درخواست ہوگی کہ وہ ان افراد کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کریں جن پر جنگی جرائم کی زیادہ تر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان لیبیا کے صدر معمر قذافی پر اقتدار سے الگ ہونے اور فوری طورپر ملک چھوڑنے کے لیے زور دیا ہے۔
مسٹر اردگان نے منگل کے روز استبول میں کہا تھا کہ مسٹر قذافی نے اصلاحات کے مطالبات مسترد کرکے خون، آنسوؤں اور تباہی کے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ ان کا کہناتھا کہ مسٹر قذافی کو لیبیا کے عوام کو مزید مشکلات سے بچانے کے لیے لازمی طورپر اقتدار چھوڑ دینا چاہیے۔
ترکی ، جو خطے کی ایک مؤثر طاقت ہے، لیبیا کی حکومت کا ایک مضبوط اتحادی ہے اور مارچ میں اس ملک پر پابندیوں کے نفاذ اور فوجی مداخلت کے خلاف آواز اٹھا چکاہے۔
مسٹر قذافی کی وفادار فورسز اور باغیوں کے درمیان جھڑپوں کاسلسلہ جاری ہے ۔ باغیوں کا کئی شہروں پر کنٹرول ہے اور وہ اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بدھ کے روز دارالحکومت طرابلس میں دو طاقت ور دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ بظاہر ان دھماکوں کی وجہ نیٹو کے فضائی حملے تھے۔