لیبیا میں ریڈ کریسینٹ نے جمعرات کو بتایا کہ ساحلی شہر درنہ میں طوفان اور سیلاب سےہلاک ہونے والوں کی تعداد گیارہ ہزار تین سو تک پہنچ گئی ہے۔ اور تلاش کا کام جاری ہے۔
میری ال دریسی نے جنکا تعلق ایک امدادی گروپ سے ہے، اے پی کو بذریعہ فون بتایا کہ مزید دس ہزار ایک سو افرادابھی تک لا پتہ ہیں۔
اس سے قبل صحت سے متعلق حکام نے درنہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعدا پانچ ہزار پانچ سو بتائی تھی۔
سمندری طوفان اور سیلاب سے درنہ شہر کے ایک چوتھائی سے زیادہ حصے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ درنہ کے مئیر کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین گنا تک بڑھ سکتی ہے۔
اتوار کی رات کو آنے والا یہ سیلاب نہ صرف پورے کے پورے خاندانوں کو بہا کر لے گیا بلکہ تیل کی دولت سے مالامال اس ملک کی کمزوریوں کو بھی دنیا کے سامنے آشکار کر گیا کہ قدرتی آفات سے نمٹنے میں انتظامیہ کی صلاحیت کتنی کمزور ہے۔
لیبیا کا شمار ایک زمانے میں دنیا کے ایک خوشحال ملک کے طور پر ہوتا تھا۔ لیکن آپس کے اختلافات اور اندرون ملک لڑائیوں اور خانہ جنگیوں نے اسےاس حال پر پہنچا دیا ہے۔
ڈینیل نامی اس طاقت ور اور شدید طوفان نے مشرقی لبیا کے شہروں اور قصبوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور ایک بڑا علاقہ زیر آب آ گیا۔ لیکن سب سے زیادہ تباہی درنہ شہر میں ہوئی۔
لیبیا کے اندرونی خلفشار کا تباہی میں کردار
ماہرین کا کہنا ہے کہ لیبیا کے اندرونی جھگڑے اور خلفشار نے بھی اس تباہی میں کردار ادا کیا ہے جس کے سبب عام آدمی کو بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیبیا اس وقت حریف حکومتوں کے درمیان بٹا ہوا ہے۔ ایک حکومت مشرقی لیبیا میں قائم ہے جب کہ دوسری دارالحکومت طرابلس میں ہے۔ اور اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ملک کا انفرا اسٹرکچر بری طرح نظر انداز ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے جمعرات کے روز کہا کہ کہ ہلاک ہونے والوں میں سے زیادہ تر کو بچایا جا سکتا تھا۔
ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن یا ڈبلیو ایم اوکے سربراہ پیٹیری طالاس نے جنیوا میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ اگر وہاں معمول کے مطابق موسمیات کا ایک فعال ادارہ موجود ہوتا تو وہ اس طوفان کے بارے میں پہلے سے وارننگ جاری کرتا اور ایمرجنسی منجمنٹ کے حکام ان علاقوں سے بر وقت انتظامات کر کے لو گوں کو نکال لیتے۔
ڈبلیو ایم او نے اس ہفتے کے اوائل میں کہا تھا نیشنل میٹرولوجیکل سینٹر نے سیلاب سے 72 گھنٹے پہلے وارننگ جاری کر دی تھی اور تمام سرکاری حکام کو ای میل اور میڈیا کے ذریعے اس سے آگاہ بھی کر دیا تھا۔
مشرقی لیبیا میں عہدیداروں نے طوفان کی آمد سے پہلے لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ دریاؤں کے بند ٹوٹ سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں علاقہ چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔
بچ جانے والوں کے لیے امدادی سرگرمیاں
اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق درنہ میں کم از کم تین لاکھ افراد بے گھر بھی ہو گئے ہیں۔ اور اس کے علاوہ مشرقی قصبوں سے بھی کئی ہزار دوسرے لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
سیلاب نے درنہ جانے والی بہت سی سڑکوں کو یا نقصان پہنچایا ہے یا بالکل برباد کردیا ہے۔ جس سے بین الاقوامی امدادی ٹیموں اور انسانی امداد پہنچانے میں رکاوٹ آ رہی ہے۔ تاہم مقامی حکام کچھ راستے صاف کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اور گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران امدادی قافلے شہر میں پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔
عالمی امداد اس ہفتے کے اوائل سے ہی بن غازی پہنچ رہی ہے۔
صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ امدادی تنظیموں کو رقوم بھیجے گا اور لیبیا کے حکام اورا قوام متحدہ کے ساتھ اضافی امداد کی فراہمی کے لیے رابطوں میں رہے گا۔
(اس رپورٹ کے لیے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔)