بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی طویل علالت کے بعد بدھ کی شب انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی عمر 92 برس تھی۔
سید علی گیلانی کی زندگی کا ایک طویل عرصہ قید و بند میں گزرا۔ وہ ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف تھے جنہوں نے قید کے دوران دو جلدوں پر مشتمل ڈائری 'رودادِ قفس' بھی لکھی۔
انہوں نے سیاسی، سماجی اور مذہبی موضوعات اور مسائل پر سیکڑوں کتابچے اور بڑی تعداد میں مضامین تحریر کیے۔ وہ ایک مصنف کے علاوہ شعلہ بیان مقرر اور مبلغ بھی تھے۔ اپنے مداحوں کے نزدیک اُن کی شخصیت گوناگوں اور کثیر جہتی تھی۔
سید گیلانی کا شمار کشمیر کی مزاحمتی تحریک کے بزرگ قائدین میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنے سخت گیر سیاسی نظریات کی وجہ سے زندگی کا ایک بڑا حصہ جیل میں گزارا۔ بھارت میں ان پر پاکستان کا 'پیڈ ایجنٹ' ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے۔
سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 کو ضلع بارہمولہ میں جھیل وُلر کے کنارے آباد زوری منز گاؤں کے ایک متمول سید گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سوپور قصبے میں حاصل کی اور پھر لاہور کے اورئنٹل کالج سے غیر سائنسی علوم میں ڈگری حاصل کی۔
سید گیلانی کا سیاسی سفر
سید گیلانی نے اپنی سیاسی زندگی کا باضابطہ آغاز 1950 میں کشمیریوں کی تحریکِ مزاحمت سے عملی طور پر جڑنے کے ساتھ کیا تھا۔
وہ مشہور عالمِ دین، مفسرِ قرآن اور جماعتِ اسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی کو اپنا اتالیق مانتے تھے۔ وہ خود جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کے ایک رکن بھی تھے جو بہت جلد اس کے چوٹی کے رہنماؤں میں شمار ہونے لگے۔
کشمیریوں کی تحریکِ مزاحمت کے دوران انہیں پہلی بار 1964 میں قید کیا گیا۔
تاہم انہوں نے کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے جماعت اسلامی کی بدلتی ہوئی سوچ اور اپروچ سے اتفاق نہ کرتے ہوئے 2003 میں اس سے علیحدگی اختیار کی اور پھر 'تحریکِ حریت جموں و کشمیر' کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔
مارچ 2018 میں ان کی ایما پر اُن کے دستِ راست محمد اشرف خان صحرائی کو 'تحریکِ حریت جموں و کشمیر' کا امیر مقرر کیا گیا۔ صحرائی رواں برس پانچ مئی کو جموں کے ایک اسپتال میں، جہاں انہیں صرف ایک دن پہلے ادھم پور علاقے کی مرکزی جیل سے منتقل کیا گیا تھا، کرونا وائرس کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے۔
سید گیلانی استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ حریت کانفرنس استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد ہے جو مارچ 1993 میں قائم کیا گیا تھا۔
مذکورہ اتحاد کے قیام کے 10 برس بعد لیڈرشپ میں بعض امور پر اختلافات کی بنا پر یہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا۔
بعد ازاں کشمیر کے مسئلے پر سخت گیر مؤقف کے حامل اتحاد کے دھڑے کی قیادت سید گیلانی نے سنبھال لی جب کہ اعتدال پسند جماعتیں سرکردہ مذہبی اور سیاسی لیڈر میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی میں جمع ہوئیں۔
کُل جماعتی حریت کانفرنس سے علیحدگی
انہوں نے 29 جون 2020 کو غیر متوقع طور پر کُل جماعتی حریت کانفرنس کے اُس دھڑے سے جس کی وہ قیادت کر رہے تھے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا۔
سید گیلانی نے حریت کانفرنس (گیلانی) سے خود کو علیحدہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ وہ اتحاد کے اندر پائی جانے والی موجودہ حالت کے پیش نظر اسے خیر باد کہنے کو مناسب سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حریت کانفرنس کو ایک مفصل خط بھی ارسال کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا "حریت کانفرنس کی موجودہ صورت حال کو مدںظر رکھتے ہوئے میں اس فورم سے مکمل علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ میں اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے ساتھ ساتھ اس فورم کے ساتھیوں کی کارکردگی کے لیے جوابدہی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد میں شامل اُن کے ساتھی اپنے لیے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔"
حریت کانفرنس (گیلانی) میں شامل بعض افراد کی یہ رائے تھی کہ انہیں اُن کی پیرانہ سالی اور بگڑتی صحت کے پیشِ نظر اتحاد کی ایسی سرگرمیوں سے الگ رکھا جائے جنہیں نبھانے میں انہیں مشکل پیش آسکتی ہے گو کہ انہیں چند سال پہلے حریت کانفرنس (گیلانی) کا تا حیات چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔
SEE ALSO: سید علی گیلانی کی تدفین، لواحقین کا جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دینے کا الزامعام لوگوں کے ایک وسیع حلقے میں بھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی آئینی خودمختاری کو ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے براہِ راست نئی دہلی کے کنٹرول والے علاقے بنانے اور اس متنازع اقدام سے پیدا شدہ زمینی صورتِ حال میں سید گیلانی ایک فعال کردار ادا کرنے اور لوگوں کی رہنمائی کرنے سے قاصر رہے تھے۔
لیکن سید گیلانی نے اس نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے اپنے خط میں لکھا تھا کہ "جسمانی کمزوری اور مختلف عوارض، روح کے مضمحل ہونے کے مترادف نہیں ہے، نہ قلب و ذہن کی قوت موقوف ہوئی ہے اور نہ ہی میرے جذبۂ حریت میں کوئی ضعف آیا ہے۔ اس دارِ فانی سے رحلت تک میں بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسبِ استطاعت ادا کرتا رہوں گا۔"
مشرف فارمولے سے اختلاف
سن 2003 میں اُس وقت کے پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے کشمیری قیادت کو مبینہ طور پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کا گرین سگنل دیا تو سید گیلانی نے اس کی بھر پور اور برملا طور پر مخالفت کی تھی۔
انہوں نے کشمیر پر 'مشرف فارمولا' کو کشمیری عوام اور پاکستان کے مفادات کے خلاف قرار دیا۔ اس کے فوراً بعد حریت کانفرنس نام نہاد سخت گیر اور اعتدال پسند دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور اسلام آباد نے میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس کی تائید و حمایت کا اعلان کیا تو مقامی سیاسی حلقوں میں اس رائے کو تقویت ملی کہ اتحاد کو دو لخت کرنے میں پاکستانی حکومت کا ہاتھ ہے۔
لیکن صدر مشرف نے نومبر 2004 میں ایک انٹرویو میں اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کی کہ حریت کانفرنس کی تقسیم میں اُن کا یا پاکستانی حکومت کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ حریت کے دو دھڑوں میں تقسیم ہونے کے پیچھے اس کی قیادت میں پائی جانے والی انا پرستی اور ایک دوسرے پر بد اعتمادی کا بڑھتا ہوا رجحان تھا۔
سید گیلانی کو بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں اسلام پسند اور ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی حلقے کا ایک ترجمان اور قائد سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے اپنے اس مؤقف میں کبھی کوئی لچک پیدا نہیں کی۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے تھے کہ کشمیر کے مسئلے کو اس کے عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق اور اس کے تاریخی پس منظر میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد کرا کے حل کیا جانا چاہیے۔
اُنہیں 2020 میں پاکستان کے سویلین ایوارڈ 'نشانِ پاکستان' سے نوازا گیا جس کی بھارت نے شدید نکتہ چینی کی تھی۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ہم خیال سیاسی جماعتوں نے انہیں پاکستان کا 'دُم چھلا' قرار دیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سید گیلانی نے گزشتہ کئی دہائیوں پر محیط اپنے سیاسی کریئر میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اسلام پسند اور پاکستان حامی سیاسی کیمپ کو فعال رکھنے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔
سید گیلانی بعض متنازع فیصلوں کے باعث وہ اپنے حامیوں اور حریفوں دونوں کی نکتۂ چینی کا ہدف بھی بنتے رہے لیکن اُن کے مداحوں کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی ہی چلی گئی اور وہ کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر ایک ایسے قائد کے طور پر ابھرے جن کے بارے میں عام لوگوں کی یہ رائے ہے کہ وہ اصولوں اور مؤقف پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ یہی ان کی عوامی مقبولیت کی بنیاد بھی ہے۔