گجرات میں ’گاؤ کشی‘ کا جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا

فائل

منظور کیے گئے بِل میں کہا گیا ہے کہ ’’اگر کوئی شخص گائے کے گوشت کے ساتھ پکڑا جائے، تو اس کی ضمانت نہیں ہوگی۔ ساتھ ہی، اگر کوئی شخص گایوں کو ٹرانسپورٹ کرتے ہوئے پکڑا گیا، تو اسے 10 سال کی سزا ہوگی‘‘

ایسے میں جب اترپردیش میں غیر قانونی ذبح خانوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے، گجرات اسمبلی نے ایک ایسا سخت قانون منظور کیا ہے جس کے تحت ’’گاؤ کشی کا جرم ثابت ہونے پر، عمر قید کی سزا دی جائے گی‘‘۔

اس کے علاوہ، ’’اگر کوئی شخص گائے کے گوشت کے ساتھ پکڑا جائے، تو اس کی ضمانت نہیں ہوگی۔ ساتھ ہی، اگر کوئی شخص گایوں کو ٹرانسپورٹ کرتے ہوئے پکڑا گیا، تو اسے 10 سال کی سزا ہوگی‘‘۔

یہ قانون اسمبلی اجلاس کے آخری روز منظور کیا گیا۔

گجرات میں اس سال کے اواخر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اب گجرات ایسی ریاست بن گئی ہے جہاں گاؤ کشی کے خلاف پورے ملک میں سب سے سخت قانون ہے۔

اس سے قبل، ’گاؤ کشی‘ کا جرم ثابت ہونے پر سات سال کی سزا تھی۔ پہلے ایک لاکھ روپے کا جرمانہ تھا اب اسے بڑھا کر پانچ لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔ جب نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے تو اس وقت کاؤ پروٹکشن بل‘ منظور کیا گیا تھا جس میں 2007 ء میں اور پھر 2011 ء میں ترمیم کی گئی۔ اب ایک بار پھر اس میں ترمیم کرکے اسے مزید سخت بنایا گیا ہے۔

نئے قانون کے تحت، پولیس کو زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جانوروں کے ٹرانسپورٹ کا لائسنس ہونے کے باوجود انھیں رات میں نہیں لے جایا جا سکے گا۔ یہ لائسنس صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک ہی قانونی سمجھے جائیں گے۔

بل کے منظور ہونے کے بعد، وزیر اعلی وجے روپانی نے کہا کہ وہ گجرات کو ایک سبزی خور ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ جس وقت یہ بل ایوان میں پیش کیا گیا، سینکڑوں سادھو جن میں بیشتر بھگوا لباس میں تھے، مہمانوں کی گیلری میں آگئے۔ ایوان میں بل پیش کیے جانے کے وقت اپوزیشن کانگریس کے ارکان موجود نہیں تھے۔ اسپیکر نے انھیں ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ایوان سے معطل کر دیا تھا۔

ایک تجزیہ کار، آلوک موہن نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب بھی کسی ریاست میں انتخات ہونے والے ہوتے ہیں، اس قسم کے جذباتی ایشوز اٹھائے جاتے ہیں‘‘۔ انھوں نے سوال کیا کہ ’’ابھی تک اس قانون میں ترمیم کیوں نہیں کی گئی تھی۔ اب جبکہ انتخابات قریب ہیں جان بوجھ کر ایسا قدم اٹھایا جا رہا ہے‘‘۔

سماجی امور کے ماہر عبدالرحمن عابد نے کہا ہے کہ قانون کی پابندی ہر شخص کو کرنی چاہیئے۔ لیکن، بقول اُن کے، ’’اس قانون سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا‘‘۔

انھوں نے کہا کہ ریاستی سطحوں پر قانون سازی کے بجائے مرکزی حکومت کو چاہیئے کہ وہ مرکزی سطح پر قانون وضع کرے اور اسے پورے ملک میں نافذ کرے۔