بی جے پی کے متنازعہ اور تیز طرار لیڈر اور ہندوتو وادی یوگی آدتیہ ناتھ نے اتوار کے روز اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 403 رکنی اسمبلی میں 325 نشستیں جیت کر شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ لکھنو میں منعقد ہونے والی حلف برداری کی تقریب میں 43 وزرا نے بھی حلف لیا۔
آدتیہ ناتھ پانچ بار سے مسلسل بی جے پی کے گورکھپور سے رکن پارلیمنٹ اور گورکھپور کے مشہور گورکھناتھ مندر کے ہیڈ مہنت ہیں۔ ان کے ساتھ ریاستی بی جے پی کے صدر کیشو پرساد موریہ اور لکھنو کے مئیر دنیش شرما نے نائب وزرائے اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا۔
سابق کرکیٹر محسن رضا کو بھی کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ وہ بی جے پی کے مسلمان رُکن ہیں۔ بی جے پی نے اسمبلی انتخابات میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ اور دونوں وزرائے اعلیٰ میں سے کوئی بھی ریاستی ایوان کا رکن نہیں ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ 1990 سے ہی سخت گیر ہندوتو کی علامت کے طور پر مشہور ہیں۔ 44 سالہ آدتیہ ناتھ کے مسلمانوں، عیسائیوں اور ہندوتو مخالفین کے بارے میں متنازعہ اور اشتعال انگیز بیانات نے ان کی شبیہ کی تشکیل کی ہے۔ انھوں نے ہندووں کے مفادات کے تحفظ کے لیے 'ہندو یووا واہنی' کے نام کی ایک تنظیم بھی بنا رکھی ہے جس کا نام وقتاً فوقتاً فرقہ وارانہ ہنگامہ آرائیوں میں سامنے آتا رہتا ہے۔ وہ 1972 میں اترا کھنڈ میں ایک راجپوت خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 21 سال کی عمر میں گورکھناتھ مندر کے مہنت اوید ناتھ کے شاگرد ہوئے اور 1998 میں مندر کے مہنت بنائے گئے۔ انھیں ایک سنیاسی اور گائے کے محافظ کے طور پر ٹریننگ دی گئی۔
انھیں وزیر اعلیٰ بنائے جانے پر بی جے پی کے لیڈروں نے بھی حیرت کا اظہار کیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات کو ذہن میں رکھ کر انھیں یہ عہدہ سونپا گیا ہے۔ بی جے پی کے بہت سے لیڈروں نے میڈیا سے آف دی ریکارڈ بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بی جے پی نے اسمبلی انتخابات میں ہندوتو کے نام پر کامیابی حاصل کر لی تو اب ہندوتو وادی چہرہ لانے کی کیا ضرورت تھی۔
گورکھپور یونیورسٹی کے پروفیسر ہرش کمار نے جو کہ ایک طویل عرصے سے آدتیہ ناتھ کی سیاست دیکھ رہے ہیں کہا کہ آدتیہ اپنی 'برانڈ یوگی' کے تاثر سے کیسے باہر آتے ہیں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھیں وزیر اعلیٰ بنائے جانے پر وہ لوگ بھی حیرت زدہ ہیں جنھوں نے ترقی کے نام پر بی جے پی کو ووٹ دیا تھا نہ کہ ہندوتو کے نام پر۔
ایک ہفتے کے اندر وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے کئی دعوے دار سامنے آئے تھے۔
سب سے پہلے سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا نام سامنے آیا۔ لیکن، بی جے پی صدر امت شاہ انھیں پسند نہیں کرتے۔ اس کے بعد کیشو پرساد موریہ اور مرکزی وزیر منوج سنہا کے نام سامنے آئے۔ لیکن ایک ہفتہ گزر جانے اور حلف برداری کی تاریخ سر پر آجانے کے باوجود کسی کے نام پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ کہا جاتا ہے کہ بالآخر 'آر ایس ایس' کی منشا کو سامنے رکھتے ہوئے، آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔