واشنگٹن میں پیش کیا جانےوالا ادبی اور مزاح سے بھرپور اسٹیج ڈرامہ۔ سنجیدہ اردو تھیٹر تو کافی عرصے سے یہاں پیش کیا جا رہا ہے، جسے مقامی طور پر فنکار ’اپنی مدد آپ‘ کے تحت اور غیر منافع بخش تنظیموں کے تعاون سے گاہے بگاہے پیش کرتے رہتے ہیں
واشنگٹن —
غالب کی شاعری سے مزین، کرنل محمد خان کی تحریر سے ماخوذ اور مزاح سے بھرپور ایک سٹیج ڈرامہ واشنگٹن میں اردو کے چاہنے والوں کے لیے یقیناً ایک خواب کی سی بات لگتی تھی۔ لیکن، ایک مقامی تھیٹر کمپنی نے واشنگٹن اور اس کے مضافات میں بسنے والی جنوبی ایشیائی کمیونٹی کے اس خواب کو حقییقت میں بدل دیا۔
’یہ نا تھی ہماری قسمت‘ نام ہے اس سٹیج ڈرامے کا جو گذشتہ ہفتے واشنگٹن کے قریب رچرڈ کاف مین تھیٹر میں پیش کیا گیا۔
ڈرامے کا مرکزی خیال اردو میں طنز و مزاح کے حوالے سے معروف شخصیت کرنل محمد خان کی تحریر سے لیا گیا، جس میں ایک کالج کیمپس کے ماحول کو دکھایا گیا ہے جہاں ولایت سے آنے والی ایک لڑکی کو اردو پڑھانے کے لیے کالج کے ایک چلبلے لڑکے اور ایک مولانا نما طالبعلم کے درمیان مقابلہ چل رہا ہے۔
اور، کالج کے دوسرے لڑکے لڑکیاں اس نوک جھونک اور اونچ نیچ میں اپنے تجزیے سے دونوں کے مستقبل کا اندازہ لگانے کی کوشش میں محو ہیں اور ساتھ ساتھ چھیڑ چھاڑ اور مکالمے بازی سے کلاس کے ماحول میں ایک پُر مزاح تجسس کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
جبکہ، غالب اور میر تقی میر کی شاعری کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کی مزاحیہ شاعری اور چٹکلوں کو ڈرامے کے مختلف ایکٹس میں شامل کیا گیا۔
ڈرامے کی کاسٹ میں واشنگٹن اور اس کے گرد و نواح میں بسنے والی پاکستانی اور بھارتی کمیونٹی کے نوجوانوں کو لیا گیا، اور کوشش کی گئی کہ ڈرامے کو آسان اور عام فہم زبان لیکن ایک ادبی انداز میں پیش کیا جائے۔ اور، یہاں بسنے والے اردو اور ہندی بولنے والوں کو ناصرف اپنی زبان سے قریب لایا جائے بلکہ انھیں ایک اچھی تفریح بھی مہیا کی جائے۔ اور اس مقصد کی کامیابی کا اندازہ اس کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کے قہقہوں اور تالیوں سے خوب ہوا، جس میں ایک بڑی تعداد واشنگٹن میں بسنے والی اردو کی علمی اور ادبی شخصیات بھی شامل تھیں۔
واشنگٹن کے علاقے میں سنجیدہ اردو تھیٹر تو کافی عرصے سے پیش کیا جا رہا ہے، جسے مقامی طور پر فنکار اپنی مدد آپ کے تحت اور غیر منافع بخش تنظیموں کے تعاون سے گاہے بگاہے پیش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن، تھیٹر میں طنز و مزاح کی صنف کو نہیں چھوا گیا تھا۔
اِس ضمن میں بارش کے پہلے قطرے کا کام کیا ’ڈانسنگ سینٹس‘ نامی ادارے نے، جو یہاں تھیٹر اور فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں میں جنوبی ایشیائی اور پاکستانی کمیونٹی کو تفریحی سرگرمیاں فراہم کرنے کے ارادے سے قائم کیا گیا۔
’ڈانسنگ سینٹس‘ کے ڈائریکٹر، شرجیل احمد نے، جو اس ڈرامے کے بھی ڈائریکٹر ہیں، ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہئے کہا کہ عرصہ20 سال سے واشنگٹن ڈی سی کے میٹرو ایریا میں رہتے ہوئے اُنھوں نے کئی سٹیج ڈراموں کو دیکھا، لیکن اُنھیں ہمیشہ سٹیج پر طنز و مزاح کی کمی محسوس ہوتی رہی۔ شرجیل خود کراچی میں اپنے کالج کے زمانے میں تھیٹر سے منسلک رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مقصد یہ تھا کہ یہاں کے تھیٹرز میں اردو زبان میں اور پورے خاندان کے لیے بہترین تفریح مہیا کی جائے۔
احمد شہزاد اس ڈرامے کے ٕٕمصنف ہیں جنھوں نے کرنل محمد خان کی ایک چھوٹی سی تحریر کو لگ بھگ ایک گھنٹے کے ڈرامے میں ڈھالا۔ احمد شہزاد کا کہنا تھا کہ اگرچہ انھوں نے ایک ایسی تحریر کو چنا جو بہت چھوٹی تھی، لیکن اس میں مزید ایکٹس کو شامل کرنا آسان تھا۔
اُنھوں نے کہانی کا پلاٹ وہی رکھا، لیکن اس میں موجودہ دور کے حساب سے فقرے اور اشعار بھی شامل کیے، تاکہ سننے والوں کو ایک پاکستانی کالج کیمپس کے ماحول کو ایک ایسی سیٹنگ میں سننے کا موقع ملے جس میں گذشتہ دور کی جھلک موجودہ زمانے میں محسوس ہو۔
پروڈیسر جمال نجمی نے اس پراجیکٹ کے ایک بڑے اور اہم مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن ایریا میں تارکینِ وطن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر جنوبی ایشیائی کمیونٹی میں، جس میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آنے والے تارکین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اس وسیع تر کمیونٹی کا آپس میں رابطے کا ذریعہ عام طور پر اردو یا ہندی زبان ہے جسے عام طور پر سب لوگ سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن، نئی نسل میں اپنی زبان سے تعلق اتنا مضبوط نہیں جتنا ہونا چاہیئے۔
اِس لیے، وہ چاہتے تھے کہ وہ اس زبان میں ان تمام احساسات و کیفیات کو پیش کر سکیں، اور اس کے ذریعے ان مسائل کی نشاندہی کرسکیں جو ہماری آنے والی نسل کو درپیش ہیں یا ہوسکتی ہیں۔
اِسی لیے، اُنھوں نے اِس ڈرامے میں زیادہ تر ایسے نوجوانوں کو لیا جو یا تو یہیں پیدا ہوئے یا بہت چھوٹی عمر میں یہاں آگئے تھے، جنھیں اردو سمجھنے میں تو دشواری نہیں لیکن بولنا اور لکھنا اُنھیں مشکل لگتا ہو۔ اور پھر انھیں غالب، میر اور فیض کے بارے میں بتایا جائےاور مزاح کے ذریعے ان کا اردو سے تعلق استوار کیا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایک پہلا قدم ہے اور آنے والے وقت میں اُن کی کوشش ہوگی کہ وہ اردو اور انگریزی زبان کے اشتراک سے ایسی کاوشیں سامنے لائیں جو جنوبی ایشیائی تارکین وطن کی دلچسبی کا باعث ہوں۔
واشنگٹن میں اردو زبان کی ایک معروف علمی اور ادبی شخصیت، جناب معظم صدیقی کو خاص طور سے اس ڈرامے کو دیکھنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
اُنھوں نے اس کے بارے میں بات کرتےہوئے کہا کہ مزاح کے عنصر کے ساتھ ساتھ آسان زبان، عام فہم مکالموں اور نوجوان اداکاروں کی موجودگی نے اس ڈرامے کو یہاں ہونے والے تھیٹر کے ڈراموں میں ایک انفرادیت بخشی ہے۔
معظم صدیقی نے کہا کہ یہاں پلنے بڑھنے والے نوجوانوں کو اپنی زبان اور ثقافت کے قریب لانے کا یہ ایک انتہائی موٴثر ذریعہ ہے۔
نئے اداکاروں نے اردو زبان کی پیچیدگیوں کو بہت اچھے طریقے سے سمجھا ہے، البتہ کچھ نو موز اداکاروں کی اداکاری میں تھوڑی بہت مزید بے ساختگی کی ضرورت ہے۔ لیکن، یہ ایک ایسی چیز ہے جسے شاید عام لوگوں نے محسوس نہ کیا ہو۔
اُنھوں نے اِس کوشش کو سراہتے ہوئے کہا کہ اِس طرح کی تھیٹر کی، خاص طور پر اردو زبان میں، بہت ضرورت ہے اور اس کوشش کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
ڈرامے کے تمام اداکار واشنگٹن ڈی سی کی جنوبی ایشیائی کمیونٹی سے چنے گئے تھے جن میں مہول گلاٹی، انیلا انور، شرجیل خان، لیلیٰ بھٹی، اسامہ جاوید، مریم عثمانی، ناصر محمود، ساجد قریشی اور حقیر، ثاقب الاسلام شامل تھے۔ میرے لیے یہ تجربہ بہت خوش آئند اور تفریح سے بھرپور رہا جس میں چار مہینے لگاتار ہر ہفتے مل کر ریہرسل کرنا، ڈائیلاگ بولنے اور اداکاری کے نت نئے طریقوں پر ریسرچ کرنا شامل رہے۔
اِس دوران، کئی نئے دوست بھی بنے اور واشنگٹن کے علاقے میں ادبی حلقے کے لوگوں سے تعلقات بھی استوار ہوا۔
مریم عثمانی، اسامہ جاوید اور لیلیٰ بھٹی اُن نوجوان اداکاروں میں سے تھے جو نہایت چھوٹی عمروں میں امریکہ آگئے تھے، اور اُن کے لیے خالص اردو کو اس طرح سے بولنے کا شاید یہ پہلا موقع تھا۔ تینوں نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اِس ڈرامے کا حصہ بن کر اُن کی اردو بلاشبہ بہتر ہوئی ہے اور انھیں خوشی ہےکہ انھیں یہاں یہ موقع میسر آیا۔ جبکہ، ’ڈانسنگ سینٹس‘ کی ٹیم نے اِس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ائندہ بھی اس طرح کی سرگرمیوں کو جاری رکھیں گے اور تارکین وطن اور اُن کی نئی نسل کو اس طرح کی ادبی اور تفریحی محفلوں کے ذریعے دیارِ غیر میں اپنی زبان اور ثقافت سے جوڑے رکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
’یہ نا تھی ہماری قسمت‘ نام ہے اس سٹیج ڈرامے کا جو گذشتہ ہفتے واشنگٹن کے قریب رچرڈ کاف مین تھیٹر میں پیش کیا گیا۔
ڈرامے کا مرکزی خیال اردو میں طنز و مزاح کے حوالے سے معروف شخصیت کرنل محمد خان کی تحریر سے لیا گیا، جس میں ایک کالج کیمپس کے ماحول کو دکھایا گیا ہے جہاں ولایت سے آنے والی ایک لڑکی کو اردو پڑھانے کے لیے کالج کے ایک چلبلے لڑکے اور ایک مولانا نما طالبعلم کے درمیان مقابلہ چل رہا ہے۔
اور، کالج کے دوسرے لڑکے لڑکیاں اس نوک جھونک اور اونچ نیچ میں اپنے تجزیے سے دونوں کے مستقبل کا اندازہ لگانے کی کوشش میں محو ہیں اور ساتھ ساتھ چھیڑ چھاڑ اور مکالمے بازی سے کلاس کے ماحول میں ایک پُر مزاح تجسس کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
جبکہ، غالب اور میر تقی میر کی شاعری کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کی مزاحیہ شاعری اور چٹکلوں کو ڈرامے کے مختلف ایکٹس میں شامل کیا گیا۔
ڈرامے کی کاسٹ میں واشنگٹن اور اس کے گرد و نواح میں بسنے والی پاکستانی اور بھارتی کمیونٹی کے نوجوانوں کو لیا گیا، اور کوشش کی گئی کہ ڈرامے کو آسان اور عام فہم زبان لیکن ایک ادبی انداز میں پیش کیا جائے۔ اور، یہاں بسنے والے اردو اور ہندی بولنے والوں کو ناصرف اپنی زبان سے قریب لایا جائے بلکہ انھیں ایک اچھی تفریح بھی مہیا کی جائے۔ اور اس مقصد کی کامیابی کا اندازہ اس کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کے قہقہوں اور تالیوں سے خوب ہوا، جس میں ایک بڑی تعداد واشنگٹن میں بسنے والی اردو کی علمی اور ادبی شخصیات بھی شامل تھیں۔
واشنگٹن کے علاقے میں سنجیدہ اردو تھیٹر تو کافی عرصے سے پیش کیا جا رہا ہے، جسے مقامی طور پر فنکار اپنی مدد آپ کے تحت اور غیر منافع بخش تنظیموں کے تعاون سے گاہے بگاہے پیش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن، تھیٹر میں طنز و مزاح کی صنف کو نہیں چھوا گیا تھا۔
اِس ضمن میں بارش کے پہلے قطرے کا کام کیا ’ڈانسنگ سینٹس‘ نامی ادارے نے، جو یہاں تھیٹر اور فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں میں جنوبی ایشیائی اور پاکستانی کمیونٹی کو تفریحی سرگرمیاں فراہم کرنے کے ارادے سے قائم کیا گیا۔
’ڈانسنگ سینٹس‘ کے ڈائریکٹر، شرجیل احمد نے، جو اس ڈرامے کے بھی ڈائریکٹر ہیں، ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہئے کہا کہ عرصہ20 سال سے واشنگٹن ڈی سی کے میٹرو ایریا میں رہتے ہوئے اُنھوں نے کئی سٹیج ڈراموں کو دیکھا، لیکن اُنھیں ہمیشہ سٹیج پر طنز و مزاح کی کمی محسوس ہوتی رہی۔ شرجیل خود کراچی میں اپنے کالج کے زمانے میں تھیٹر سے منسلک رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مقصد یہ تھا کہ یہاں کے تھیٹرز میں اردو زبان میں اور پورے خاندان کے لیے بہترین تفریح مہیا کی جائے۔
احمد شہزاد اس ڈرامے کے ٕٕمصنف ہیں جنھوں نے کرنل محمد خان کی ایک چھوٹی سی تحریر کو لگ بھگ ایک گھنٹے کے ڈرامے میں ڈھالا۔ احمد شہزاد کا کہنا تھا کہ اگرچہ انھوں نے ایک ایسی تحریر کو چنا جو بہت چھوٹی تھی، لیکن اس میں مزید ایکٹس کو شامل کرنا آسان تھا۔
اُنھوں نے کہانی کا پلاٹ وہی رکھا، لیکن اس میں موجودہ دور کے حساب سے فقرے اور اشعار بھی شامل کیے، تاکہ سننے والوں کو ایک پاکستانی کالج کیمپس کے ماحول کو ایک ایسی سیٹنگ میں سننے کا موقع ملے جس میں گذشتہ دور کی جھلک موجودہ زمانے میں محسوس ہو۔
پروڈیسر جمال نجمی نے اس پراجیکٹ کے ایک بڑے اور اہم مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن ایریا میں تارکینِ وطن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر جنوبی ایشیائی کمیونٹی میں، جس میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آنے والے تارکین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اس وسیع تر کمیونٹی کا آپس میں رابطے کا ذریعہ عام طور پر اردو یا ہندی زبان ہے جسے عام طور پر سب لوگ سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن، نئی نسل میں اپنی زبان سے تعلق اتنا مضبوط نہیں جتنا ہونا چاہیئے۔
اِس لیے، وہ چاہتے تھے کہ وہ اس زبان میں ان تمام احساسات و کیفیات کو پیش کر سکیں، اور اس کے ذریعے ان مسائل کی نشاندہی کرسکیں جو ہماری آنے والی نسل کو درپیش ہیں یا ہوسکتی ہیں۔
اِسی لیے، اُنھوں نے اِس ڈرامے میں زیادہ تر ایسے نوجوانوں کو لیا جو یا تو یہیں پیدا ہوئے یا بہت چھوٹی عمر میں یہاں آگئے تھے، جنھیں اردو سمجھنے میں تو دشواری نہیں لیکن بولنا اور لکھنا اُنھیں مشکل لگتا ہو۔ اور پھر انھیں غالب، میر اور فیض کے بارے میں بتایا جائےاور مزاح کے ذریعے ان کا اردو سے تعلق استوار کیا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایک پہلا قدم ہے اور آنے والے وقت میں اُن کی کوشش ہوگی کہ وہ اردو اور انگریزی زبان کے اشتراک سے ایسی کاوشیں سامنے لائیں جو جنوبی ایشیائی تارکین وطن کی دلچسبی کا باعث ہوں۔
واشنگٹن میں اردو زبان کی ایک معروف علمی اور ادبی شخصیت، جناب معظم صدیقی کو خاص طور سے اس ڈرامے کو دیکھنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
اُنھوں نے اس کے بارے میں بات کرتےہوئے کہا کہ مزاح کے عنصر کے ساتھ ساتھ آسان زبان، عام فہم مکالموں اور نوجوان اداکاروں کی موجودگی نے اس ڈرامے کو یہاں ہونے والے تھیٹر کے ڈراموں میں ایک انفرادیت بخشی ہے۔
معظم صدیقی نے کہا کہ یہاں پلنے بڑھنے والے نوجوانوں کو اپنی زبان اور ثقافت کے قریب لانے کا یہ ایک انتہائی موٴثر ذریعہ ہے۔
نئے اداکاروں نے اردو زبان کی پیچیدگیوں کو بہت اچھے طریقے سے سمجھا ہے، البتہ کچھ نو موز اداکاروں کی اداکاری میں تھوڑی بہت مزید بے ساختگی کی ضرورت ہے۔ لیکن، یہ ایک ایسی چیز ہے جسے شاید عام لوگوں نے محسوس نہ کیا ہو۔
اُنھوں نے اِس کوشش کو سراہتے ہوئے کہا کہ اِس طرح کی تھیٹر کی، خاص طور پر اردو زبان میں، بہت ضرورت ہے اور اس کوشش کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
ڈرامے کے تمام اداکار واشنگٹن ڈی سی کی جنوبی ایشیائی کمیونٹی سے چنے گئے تھے جن میں مہول گلاٹی، انیلا انور، شرجیل خان، لیلیٰ بھٹی، اسامہ جاوید، مریم عثمانی، ناصر محمود، ساجد قریشی اور حقیر، ثاقب الاسلام شامل تھے۔ میرے لیے یہ تجربہ بہت خوش آئند اور تفریح سے بھرپور رہا جس میں چار مہینے لگاتار ہر ہفتے مل کر ریہرسل کرنا، ڈائیلاگ بولنے اور اداکاری کے نت نئے طریقوں پر ریسرچ کرنا شامل رہے۔
اِس دوران، کئی نئے دوست بھی بنے اور واشنگٹن کے علاقے میں ادبی حلقے کے لوگوں سے تعلقات بھی استوار ہوا۔
مریم عثمانی، اسامہ جاوید اور لیلیٰ بھٹی اُن نوجوان اداکاروں میں سے تھے جو نہایت چھوٹی عمروں میں امریکہ آگئے تھے، اور اُن کے لیے خالص اردو کو اس طرح سے بولنے کا شاید یہ پہلا موقع تھا۔ تینوں نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اِس ڈرامے کا حصہ بن کر اُن کی اردو بلاشبہ بہتر ہوئی ہے اور انھیں خوشی ہےکہ انھیں یہاں یہ موقع میسر آیا۔ جبکہ، ’ڈانسنگ سینٹس‘ کی ٹیم نے اِس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ائندہ بھی اس طرح کی سرگرمیوں کو جاری رکھیں گے اور تارکین وطن اور اُن کی نئی نسل کو اس طرح کی ادبی اور تفریحی محفلوں کے ذریعے دیارِ غیر میں اپنی زبان اور ثقافت سے جوڑے رکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔