کراچی کے شہریوں کے لئے اس ’ویک اینڈ‘ کی سب سے بڑی دلچسپی 'لا ئیو اسٹاک، ڈیری، فشریز، پولٹری اور زرعی نمائش' کا انعقاد تھی۔ لاکھوں لوگوں نے یہ نمائش دیکھی، جبکہ اقتصادی لحاظ سے بھی اسے نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے
کراچی —
کیا آپ ’چھوٹے صاحب‘، ’سوہنا سائیں‘،’ٹھاکر‘، اور ’غنڈے‘ سے واقف ہیں؟۔۔۔کیا کہا انڈین فلموں کے نام ہیں۔۔؟ جی نہیں۔۔ایسا بالکل نہیں ہے، بلکہ یہ ان بیلوں کے نام ہیں جو کراچی میں یکم اور دو مارچ کو 'سندھ بورڈ آف انوسٹمنٹ' کے تعاون سے’ایکسپوسینٹر میں منعقد ہونے والی 'لائیو اسٹاک، ڈیری، فشریز، پولٹری اور زرعی نمائش و سیمینارز' کا حصہ تھا۔
دو روز تک چلنے والی اس نمائش کو 35سے 40ہزار افراد نے بہت ذوق و شوق سے دیکھا۔ فرانس، جرمنی، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا اور پاکستان کی اعلیٰ ترین نسل کی گائیں، بیل، بکریاں، بکرے، بھیڑ، گھوڑے، رنگ برنگی چڑیاں، طوطے، مرغیاں اور ان سب سے بڑھ کر شتر مرغ نمائش کی خاص دلکشی تھے۔ سب سے زیادہ لوگوں کا رش انہی کے ٹینٹس میں نظر آیا۔
بیشتر لوگوں نے بکریوں اور بھیڑوں میں بھی دلچسپی لی۔
بکریوں کی کئی قسمیں نمائش کا حصہ تھیں۔ ان میں 'کاموری' نام کی ایک نسل ایسی بھی تھی جس کے بارے میں ہالہ کے رہائشی اس کے مالک ابراہیم میمن نے بتایا 'کاموری اب نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ جن لوگوں کو بکریاں پالنے کا شوق ہے انہی کے پاس اب یہ نظر آتی ہے۔'
'کاموری' کی خاصیت یہ ہے کہ اسے دور سے دیکھیں تو لگتا ہے گویا اس نے اجرک پہنی ہوئی ہے۔ ابراہیم کے بقول، اس بکری کی موجودہ قیمت چھ لاکھ روپے ہے۔ یہ ایک دن میں چھ لیٹر دودھ دیتی ہے۔ یہ خاصیت سندھ میں پائی جانے والی کسی اور نسل میں نہیں۔'
ابراہیم میمن نے مزید بتایا کہ یہ نسل اب خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔
سندھ کیٹل فارم کے ٹینٹ میں بدین میں پائی جانے والی لمبے چوڑے قد والی بھینس 'کُنڈھی' بھی موجود تھی۔
یہاں موجود ایک شخص وریام نے پوچھنے پر بتایا کہ اس کی مارکیٹ ویلو 20 لاکھ روپے ہے۔ یہ روزانہ 30 لیٹر دودھ دیتی ہے۔ ایک سوال پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ شوق کی غرض سے اسے پالتے ہیں اور صرف نمائش کی غرض سے ہی اسے کراچی لائے ہیں، تجارت ان کامقصد نہیں۔
موشیوں کے لئے بنائے گئے ٹینٹس کے آخری حصے میں نمائش کی ایک اور دلکشی خوبصورت گھوڑوں کی شکل میں موجود تھی۔ خاص کر بچے گھوڑوں کی سواری کے لئے دیوانہ وار وہاں گھوم رہے تھے۔
گھوڑوں کی دیکھ بھال پر مامور ایک ملازم، محمد جمن نے بتایا کہ گھوڑوں کی اس نسل کا تعلق سندھ کے علاقے مورو سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے دن بچوں کے لئے ان کی سواری مفت ہے۔
نوعمر لڑکوں، مردوں، بچوں اور خصوصی طور پر خواتین کی بڑی تعداد نے مویشیوں کی نمائش کے ساتھ ساتھ ثقافتی شوز، پھولوں کی نمائش، سندھ کی روایتی مشہور ٹوپیوں، ملبوسات، رلیوں، انتہائی دلکش اور رنگی برنگی مچھلیوں، ڈیری پروڈکٹس، جدید زرعی و پولٹری آلات کی نمائش اور فوڈ کورٹس کے بھی خوب مزے لوٹے۔
چونکہ موجودہ حالات کے رہتے ہوئے کراچی میں نمائشوں، میلوں اور اسی قسم کی دیگر عوامی تقریبات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ لہذا، اس نمائش نے دو دنوں تک خوب عوامی توجہ حاصل کی۔
حکومتی و انتظامی ادارے
حکومت سندھ کے ساتھ ساتھ ’سندھ بورڈ آف انوسٹمنٹ‘،’کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن‘ اور’سندھ انٹرپرائز ڈیولپمنٹ اینڈ فنڈ‘ نے بھی نمائش کے انعقاد میں حصہ لیا۔
سندھ بورڈ آف انوسٹمنٹ کے مطابق 'لا ئیو اسٹاک، ڈیری، فشریز، پولٹری اور زرعی نمائش' سنہ 2011 سے ہر سال منعقد ہوتی ہے۔ اس کے تحت، اہم موضوعات پر سیمینارز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ پہلے سال 40ہزار افراد نے نمائش دیکھی۔ نمائش کے ذریعے چار کروڑ روپے کے معاہدے ہوئے۔
سال 2012ء میں نمائش اور سیمینارز میں زراعت کا شعبہ بھی شامل ہوگیا، جس سے اس کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔ اس سال ایک ارب روپے کے معاہدے ہوئے، جبکہ ایونٹ میں چین، جاپان، سوئٹزرلینڈ، سری لنکا، امریکا، برطانیہ اور اٹلی سمیت142 مقامی و غیر ملکی کمپنیوں نے شرکت کی۔
سال 2013ء میں سندھی فن و ثقافت کی ترجمان کرتی اشیاء، ہاتھ سے بنے ہوئے ملبوسات اور دیگر عام استعمال کی مصنوعات بھی نمائش کا حصہ بنیں۔ اس سے نہ صرف ایونٹ میں سندھ کا دلچسپ ثقافتی رنگ دیکھنے کو ملا بلکہ جن شہریوں نے اندرون پوری طرح نہیں دیکھا یا جنہیں وہاں جانے کا موقع نہیں ملتا ان کے لئے تو یہ ثقافتی رنگ سونے پر سہاگہ کا کام دیتا ہے۔
نمائش کے مقاصد میں سندھ میں مویشی، ڈیری، ماہی گیری اور زرعی شعبے میں ہونے والی تحقیق اور جدید آلات کے استعمال کو فروغ دینا، سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانا، صوبے کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانا، بین الاقوامی مارکیٹ کی تلاش اور انڈسٹری کی استحکام دینا شامل ہے۔
سندھ کے وزیر زراعت سردار علی نواز خان مہر اور لائیواسٹاک و فشریز کے وزیر جام خان شورو کا کہنا ہے کہ نمائش سے 2ارب روپے آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ان کے مطابق گزشتہ سال اس نمائش سے ایک ارب روپے کی آمدنی ہوئی تھی۔
نمائش کا افتتاح سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے کیا تھا، جبکہ عوام کے علاوہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے نمائندوں، ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں، سفارت کاروں، تاجروں، بینکاری اور سرمایہ کاری کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے شرکت کی۔
بیشتر لوگوں نے بکریوں اور بھیڑوں میں بھی دلچسپی لی۔
بکریوں کی کئی قسمیں نمائش کا حصہ تھیں۔ ان میں 'کاموری' نام کی ایک نسل ایسی بھی تھی جس کے بارے میں ہالہ کے رہائشی اس کے مالک ابراہیم میمن نے بتایا 'کاموری اب نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ جن لوگوں کو بکریاں پالنے کا شوق ہے انہی کے پاس اب یہ نظر آتی ہے۔'
'کاموری' کی خاصیت یہ ہے کہ اسے دور سے دیکھیں تو لگتا ہے گویا اس نے اجرک پہنی ہوئی ہے۔ ابراہیم کے بقول، اس بکری کی موجودہ قیمت چھ لاکھ روپے ہے۔ یہ ایک دن میں چھ لیٹر دودھ دیتی ہے۔ یہ خاصیت سندھ میں پائی جانے والی کسی اور نسل میں نہیں۔'
سندھ کیٹل فارم کے ٹینٹ میں بدین میں پائی جانے والی لمبے چوڑے قد والی بھینس 'کُنڈھی' بھی موجود تھی۔
یہاں موجود ایک شخص وریام نے پوچھنے پر بتایا کہ اس کی مارکیٹ ویلو 20 لاکھ روپے ہے۔ یہ روزانہ 30 لیٹر دودھ دیتی ہے۔ ایک سوال پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ شوق کی غرض سے اسے پالتے ہیں اور صرف نمائش کی غرض سے ہی اسے کراچی لائے ہیں، تجارت ان کامقصد نہیں۔
موشیوں کے لئے بنائے گئے ٹینٹس کے آخری حصے میں نمائش کی ایک اور دلکشی خوبصورت گھوڑوں کی شکل میں موجود تھی۔ خاص کر بچے گھوڑوں کی سواری کے لئے دیوانہ وار وہاں گھوم رہے تھے۔
گھوڑوں کی دیکھ بھال پر مامور ایک ملازم، محمد جمن نے بتایا کہ گھوڑوں کی اس نسل کا تعلق سندھ کے علاقے مورو سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے دن بچوں کے لئے ان کی سواری مفت ہے۔
چونکہ موجودہ حالات کے رہتے ہوئے کراچی میں نمائشوں، میلوں اور اسی قسم کی دیگر عوامی تقریبات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ لہذا، اس نمائش نے دو دنوں تک خوب عوامی توجہ حاصل کی۔
حکومتی و انتظامی ادارے
حکومت سندھ کے ساتھ ساتھ ’سندھ بورڈ آف انوسٹمنٹ‘،’کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن‘ اور’سندھ انٹرپرائز ڈیولپمنٹ اینڈ فنڈ‘ نے بھی نمائش کے انعقاد میں حصہ لیا۔
سندھ بورڈ آف انوسٹمنٹ کے مطابق 'لا ئیو اسٹاک، ڈیری، فشریز، پولٹری اور زرعی نمائش' سنہ 2011 سے ہر سال منعقد ہوتی ہے۔ اس کے تحت، اہم موضوعات پر سیمینارز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ پہلے سال 40ہزار افراد نے نمائش دیکھی۔ نمائش کے ذریعے چار کروڑ روپے کے معاہدے ہوئے۔
سال 2012ء میں نمائش اور سیمینارز میں زراعت کا شعبہ بھی شامل ہوگیا، جس سے اس کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔ اس سال ایک ارب روپے کے معاہدے ہوئے، جبکہ ایونٹ میں چین، جاپان، سوئٹزرلینڈ، سری لنکا، امریکا، برطانیہ اور اٹلی سمیت142 مقامی و غیر ملکی کمپنیوں نے شرکت کی۔
نمائش کے مقاصد میں سندھ میں مویشی، ڈیری، ماہی گیری اور زرعی شعبے میں ہونے والی تحقیق اور جدید آلات کے استعمال کو فروغ دینا، سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانا، صوبے کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانا، بین الاقوامی مارکیٹ کی تلاش اور انڈسٹری کی استحکام دینا شامل ہے۔
سندھ کے وزیر زراعت سردار علی نواز خان مہر اور لائیواسٹاک و فشریز کے وزیر جام خان شورو کا کہنا ہے کہ نمائش سے 2ارب روپے آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ان کے مطابق گزشتہ سال اس نمائش سے ایک ارب روپے کی آمدنی ہوئی تھی۔
نمائش کا افتتاح سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے کیا تھا، جبکہ عوام کے علاوہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے نمائندوں، ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں، سفارت کاروں، تاجروں، بینکاری اور سرمایہ کاری کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے شرکت کی۔