جموں کو پاکستان سے الگ کرنے والی دیوار،’دیوار برلن‘ اور فلسطین کے علاقے مغربی کنارے میں اسرائیل کی تعمیر کردہ دیوار سے زیادہ بلند ہوگی اور اس کی اونچائی دس میٹر ہو گی
کراچی ۔۔۔ بھارت پاکستان سے ملنے والی جموں کی 198 کلومیٹر طویل سرحد پر جرمنی کی مشہور ’دیواربرلن‘ کی طرز پر ایک دیوار تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ دیوار مبینہ طور پر در اندازوں کو روکنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔
بھارتی اخبار ’دی اکنامک ٹائمز‘ کے مطابق جموں کو پاکستان سے الگ کرنے والی دیوار، ’دیوار برلن‘ اور فلسطین کے علاقے مغربی کنارے میں اسرائیل کی تعمیرکردہ دیوار سے زیادہ بلند ہوگی اور اس کی اونچائی دس میٹر ہوگی۔
ایک سو اٹھانوے کلومیٹر لمبی مجوزہ دیوار ڈسٹرکٹ جموں، کاٹھوا و رسامبا کے 118 دیہاتوں سے گزرے گی۔ دیوارکی تعمیر پر آنے والے اخراجات کے بارے میں سرکاری طور پر اعداد و شمار تو جاری نہیں کئے گئے، تاہم دیوار کے لئے فنڈز وزارت داخلہ فراہم کرے گی اور تعمیراتی کام کی نگرانی بارڈر سیکورٹی فورس کرے گی۔
دیوار کی تعمیر کے لئے ابتدائی کام اور کاغذی کاروائیاں شروع کردی گئی ہیں۔
تقریباً 86 دیہاتوں کے لئے جن کی زمین دیوار کی تعمیر میں کام آئے گی ’نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ‘ حاصل کر لیا گیا ہے، جبکہ دیگر کاغذی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ کاغذی کارروائیاں مکمل ہونے کے بعد بارڈر سیکیورٹی فورس زمین کے مالکان کو ہرجانہ ادا کر کے تعمیراتی کام کا آغاز کرے گی۔
جموں کے ڈویژنل کمشنر شانت منوں نے بتایا کہ دس دیہاتوں کے لئے مقامی لوگوں اور اسمبلی ممبران کے ’نوآبجیکشن سرٹیفیکیٹ‘ کا انتظار ہے۔ کچھ کیسز میں کسان اپنی 135فٹ چوڑی زمین بارڈر سیکورٹی فورس کو دینے کو تیار نہیں۔ ابتدا میں 45فٹ لینے کا منصوبہ تھا جسے بعد میں تبدیل کر کے 135فٹ کردیا گیا۔
پاکستان سے ملنے والی جموں و کشمیرکی سرحد پر پہلے ہی بارہ فٹ کی دہری متوازی خار دار تاروں سے بنی’دیوار‘ موجود ہے۔ اس پر فلڈ لائٹس نصب ہیں۔ 21اگست 2011کو ناسا کی ارتھ آبزرویٹری نے نارنجی رنگ کی روشنیوں کی ایک لکیر دریافت کی تھی جو بہت نمایاں تھی۔ روشنی کی یہ لکیر جموں سرحد کی باڑھوں پر لگی فلڈ لائٹس تھیں۔ ناسا کا کہنا تھا کہ یہ روشنیاں پاکستان اور بھارت کی ہائے ویز سے بھی زیادہ نمایاں اور روشن ہیں۔
بھارتی حکام جہاں پراعتماد ہیں کہ دیوار کی تعمیر سے اسمگلنگ اور دراندازی کے مسائل سے نجات مل جائے گی، وہیں بارڈر سیکیورٹی فورس کو دیوار کے سلسلے میں دواہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ پہلا چیلنج کسی ایسی ایجنسی کا انتخاب ہے جو پروجیکٹ کو پلان کے مطابق بنا سکے جبکہ دوسرا چیلنج دس کلومیٹر کے دلدلی علاقے کو کور کرنے کا تکنیکی حل تلاش کرنا ہے۔
بھارتی اخبار ’دی اکنامک ٹائمز‘ کے مطابق جموں کو پاکستان سے الگ کرنے والی دیوار، ’دیوار برلن‘ اور فلسطین کے علاقے مغربی کنارے میں اسرائیل کی تعمیرکردہ دیوار سے زیادہ بلند ہوگی اور اس کی اونچائی دس میٹر ہوگی۔
ایک سو اٹھانوے کلومیٹر لمبی مجوزہ دیوار ڈسٹرکٹ جموں، کاٹھوا و رسامبا کے 118 دیہاتوں سے گزرے گی۔ دیوارکی تعمیر پر آنے والے اخراجات کے بارے میں سرکاری طور پر اعداد و شمار تو جاری نہیں کئے گئے، تاہم دیوار کے لئے فنڈز وزارت داخلہ فراہم کرے گی اور تعمیراتی کام کی نگرانی بارڈر سیکورٹی فورس کرے گی۔
دیوار کی تعمیر کے لئے ابتدائی کام اور کاغذی کاروائیاں شروع کردی گئی ہیں۔
تقریباً 86 دیہاتوں کے لئے جن کی زمین دیوار کی تعمیر میں کام آئے گی ’نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ‘ حاصل کر لیا گیا ہے، جبکہ دیگر کاغذی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ کاغذی کارروائیاں مکمل ہونے کے بعد بارڈر سیکیورٹی فورس زمین کے مالکان کو ہرجانہ ادا کر کے تعمیراتی کام کا آغاز کرے گی۔
جموں کے ڈویژنل کمشنر شانت منوں نے بتایا کہ دس دیہاتوں کے لئے مقامی لوگوں اور اسمبلی ممبران کے ’نوآبجیکشن سرٹیفیکیٹ‘ کا انتظار ہے۔ کچھ کیسز میں کسان اپنی 135فٹ چوڑی زمین بارڈر سیکورٹی فورس کو دینے کو تیار نہیں۔ ابتدا میں 45فٹ لینے کا منصوبہ تھا جسے بعد میں تبدیل کر کے 135فٹ کردیا گیا۔
پاکستان سے ملنے والی جموں و کشمیرکی سرحد پر پہلے ہی بارہ فٹ کی دہری متوازی خار دار تاروں سے بنی’دیوار‘ موجود ہے۔ اس پر فلڈ لائٹس نصب ہیں۔ 21اگست 2011کو ناسا کی ارتھ آبزرویٹری نے نارنجی رنگ کی روشنیوں کی ایک لکیر دریافت کی تھی جو بہت نمایاں تھی۔ روشنی کی یہ لکیر جموں سرحد کی باڑھوں پر لگی فلڈ لائٹس تھیں۔ ناسا کا کہنا تھا کہ یہ روشنیاں پاکستان اور بھارت کی ہائے ویز سے بھی زیادہ نمایاں اور روشن ہیں۔
بھارتی حکام جہاں پراعتماد ہیں کہ دیوار کی تعمیر سے اسمگلنگ اور دراندازی کے مسائل سے نجات مل جائے گی، وہیں بارڈر سیکیورٹی فورس کو دیوار کے سلسلے میں دواہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ پہلا چیلنج کسی ایسی ایجنسی کا انتخاب ہے جو پروجیکٹ کو پلان کے مطابق بنا سکے جبکہ دوسرا چیلنج دس کلومیٹر کے دلدلی علاقے کو کور کرنے کا تکنیکی حل تلاش کرنا ہے۔