رسائی کے لنکس

پاک بھارت فوجی عہدیداروں کی ملاقات جلد متوقع


سرتاج عزیز
سرتاج عزیز

وزیرِ اعظم پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی و اُمورِ خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دونوں عسکری عہدیدار آئندہ ہفتے منگل کو ہاٹ لائن پر رابطے میں اپنی براہ راست ملاقات کی تاریخ کا تعین کر لیں گے، جو اُن کے بقول آئندہ چند ہفتوں کے دوران ممکن ہو گی۔

وزیرِ اعظم پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی و اُمورِ خارجہ سرتاج عزیز نے عندیہ دیا ہے کہ متنازع کشمیر میں جاری سرحدی کشیدگی ختم کرنے کے لیے بھارت اور پاکستان کے اعلیٰ عسکری عہدیدار آئندہ ہفتے ٹیلی فون پر معمول کے رابطے میں براہ راست ملاقات کی تاریخ کا تعین کر لیں گے۔

پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ نے نیو یارک میں 29 ستمبر کو ملاقات میں اتفاق کیا تھا کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے دونوں ممالک کی افواج کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) براہ راست ملاقات کریں گے۔

ڈی جی ایم اوز کے مابین ٹیلی فون پر معمول کے متعدد رابطوں کے باوجود مجوزہ ملاقات کو تاحال عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ہے۔

سرتاج عزیز نے رواں ہفتے دورہِ بھارت کے موقع پر ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں بتایا کہ فریقین براہ راست ملاقات کی تاریخ کے تعین میں ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔

مگر اُن کا کہنا تھا کہ دونوں عسکری عہدیدار آئندہ ہفتے منگل کو ہاٹ لائن پر رابطے میں اپنی براہ راست ملاقات کی تاریخ کا تعین کر لیں گے، جو اُن کے بقول آئندہ چند ہفتوں کے دوران ممکن ہو گی۔

پاکستان میں بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ کشمیر میں سرحدی کشیدگی سے محفوظ رہنے کے لیے مسلمہ طریقہ کار موجود ہیں اور جھڑپوں کا سلسلہ بند کرنے کے لیے ڈی جی ایم اوز کی ملاقات ضروری نہیں۔

معروف دفاعی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں: ’’طریقہ کار یہی ہے کہ ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز کے پاس ہاٹ لائن ہے، اس کے بعد لائن آف کنٹرول پر فلیگ میٹنگز ہوتی ہیں اور ان سے معاملہ طے ہو جاتا ہے ... (تو) اس قسم کی صورت حال کو حل کرنے کے لیے طریقہ کار موجود ہیں، بڑے مسلمہ طریقہ کار ہیں جو ماضی میں بھی استعمال کیے گئے ہیں۔‘‘

پاکستان حالیہ مہینوں میں تواتر سے یہ کہتا آیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ جامع امن مذاکرات کا سلسلہ بحال کرکے قریبی دوطرفہ تعلقات اُستوار کرنے کا خواہاں ہے، مگر بھارتی وزیرِ خارجہ سلمان خورشید نے رواں ہفتے سرتاج عزیز سے ملاقات کے بعد کہا کہ بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کے لیے ماحول کا ساز گار ہونا ضروری ہے۔

بین الاقوامی اُمور کی ماہر ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کچھ حد تک تو بہتر ہو سکتے ہیں لیکن کوئی نمایاں پیش رفت اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک دونوں ہمسایہ ممالک حل طلب مسائل پر متفق نہیں ہو جاتے۔

’’ان (تعلقات) میں کوئی مربوط بہتری اس وقت تک نہیں آ سکتی جب تک کہ یہ اس بات پر متفق نہیں ہوتے کہ دونوں کون سے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کہتا ہے کہ کشمیر مسئلہ ہے جو حل کرنا بہت ضروری ہے، بھارت اس کو اپنا اندرونی معاملہ کہتا ہے، تو یقینی طور پر اس کا کوئی حل سامنے نہیں آ سکتا ہے جب تک کہ آپ کوئی جامع حکمت عملی نہیں بناتے ہیں جس کے تحت پاک بھارت تعلقات بہتر کیے جا سکیں۔‘‘

پاکستان کی موجودہ حکومت تنازع کشمیر کے حل کی طرف پیش رفت کے لیے بین الاقوامی برادری کی ثالثی پر بھی زور دے رہی ہے، لیکن بھارت اس تجویز کو مسترد کرتا آیا ہے۔
XS
SM
MD
LG