برطانیہ میں جمعرات کو ایک عوامی ریفرینڈم میں برطانوی عوام اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں کہ آیا وہ برطانیہ کو یورپی یونین کے ساتھ مربوط دیکھنا چاہتے ہیں یا برطانیہ کو الگ دیکھنا چاہتے ہیں۔
برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے یا اسے چھوڑنے سے متعلق ریفرینڈم کی مہم لیبر پارٹی کی رکن پارلیمان جو کوکس کی ہلاکت کے بعد دو روز معطل رہنے کے بعد دوبارہ شروع کی گئی ہے۔
مختلف اخبارات اور تنظیموں کی طرف سے کیے گئے تازہ ترین انتخابی جائزوں کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ آخری ہفتے میں سوئنگ موجودہ نظام کےحق میں واپس پلٹ آئی ہے۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون یورپی یونین کی حمایت میں مہم کی قیادت کر رہے ہیں اور یورپی یونین سے نکلنے کے نتیجے میں اقتصادی خطرات کے حوالے سے عوام کی توجہ حاصل کرنے کی بار بار کوشش کر رہے ہیں۔
برطانوی اخبارات اس رجحان کی واضح طور پر نشاندہی کر رہے ہیں کہ برطانیہ یورپی ملکوں کے ساتھ اتحاد کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ پولنگ سے چار روز قبل شائع ہونے والے ایک ملک گیر انتخابی جائزے سے پتا چلتا ہے کہ یورپی یونین کے حامیوں نے تین پوائنٹس سے سبقت حاصل کر لی ہے۔
برطانیہ کے ایک معروف اخبار ’ڈیلی میل‘ نے اتوار کے روز تازہ ترین رائے عامہ کے نتائج شائع کئے ہیں جس کے مطابق 45 فیصد برطانوی عوام نے ملک کے یورپی اتحاد میں شامل رہنے کی حمایت کی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں 42 فیصد افراد یونین سے انخلاء کے حامی ہیں۔
'میل سنڈے' کے سرویشین نامی عوامی سروے میں شامل 1,001 برطانوی شہریوں کی رائے سے پتا چلتا ہے کہ یہ فرق زیادہ بڑا ہو سکتا ہے اور آخری سوئنگ یورپی اتحاد کی حمایت میں نظر آنے کا امکان ہے۔
ریفرنڈم سے ایک ہفتے قبل جمعرات کو شمالی انگلینڈ کی خاتون رکن پارلیمان جو کوکس کو ان کے حلقے میں تھامس مائر نامی شخص نے قتل کر دیا تھا۔
جو کوکس یورپی یونین کی رکنیت برقرار رکھنے کی مہم کی حمایت کر رہی تھیں اور ان کی ہلاکت نے برطانوی قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اگرچہ جو کی ہلاکت سے قبل پچھلے ہفتے کے عوامی جائزوں کے مطابق بریگزٹ یعنی برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑے کی مہم کو مقبولیت حاصل تھی لیکن اتوار کو شائع ہونے والے انتخابی جائزوں نے عوامی رائے کی واضح تبدیلی کو ظاہر کیا ہے۔
اتوار کے روز شائع ہونے والا سنڈے ٹائمز کا انتخابی جائزہ بھی یونین کے حامیوں کی سبقت کو ظاہر کرتا ہے۔
خود مختار ادارے ’یوگوو‘ کے اس نئے سروے کے نتائج جمعرات اور جمعے کے انٹرویوز پر مبنی ہیں۔
یو گوو کے مطابق دونوں فریقین ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار ہیں لیکن نئے نتائج میں یورپی اتحاد کے ساتھ رہنے والوں کی تعداد 44 فیصد اور یونین کی مخالفت کی مہم کو 43 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے۔
سنڈے ٹائمز کا کہنا ہے کہ یونین کی حمایت میں اضافہ نام نہاد بریگزٹ کے معاشی اثرات کے بارے میں ووٹروں میں بڑھتے ہوئے خدشات کی عکاسی کرتا ہے۔
بی ایم جی نامی خود مختار ادارے نے 'دی ہیرالڈ' اخبار کے لیے برطانیہ میں ایک ٹیلی فونک سروے منعقد کیا جس کے نتائج اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یورپی اتحاد کی رکنیت برقرار رکھنے والوں کی تعداد میں اس ہفتے اضافہ ہوا ہے اور اب یہ مہم تین پوائنٹس سے سبقت حاصل کر چکی ہے۔
سروے میں 1,043 برطانوی عوام شامل تھے جبکہ رائے عامہ کے نتائج کے مطابق 46 فیصد عوام نے یورپی اتحاد کے حق میں اور 43فیصد نے مخالفت میں ووٹ ڈالنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
اخبار کے مطابق اگر سروے کا جواب نا د ینے والے افراد اور تذبذب کا شکار افراد کو بھی اس نتائج میں شامل کر لیا جائے تو صورت حال کچھ یوں ہو گی کہ یونین کی حمایت 53 فیصد اور یونین کی مخالفت میں47 فیصد ووٹ ڈالے جا سکتے ہیں۔
ایک تیسرے اوپنین نامی سروے جو 'اخبار آبزرور' کی طرف سے بدھ کو منعقد کیا گیا تھا اس میں ریفرنڈم کے حوالے سے عوامی رائے میں توازن نظر آیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی یا رکنیت بحال رکھنے کے سوال پر عوام اب بھی تذبذب کا شکار ہے۔
انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریقین کو44 فیصد عوام کی طرف سے حمایت حاصل ہے جبکہ پچھلے ہفتے کی جائزہ رپورٹ میں یونین سے انخلاء کی مہم کو دو پوائنٹس سے سبقت حاصل تھی۔
'اخبار سنڈے پیپلز' اور 'انڈیپینڈنٹ' کی طرف کرائے گئے کام ریس نامی آزاد انتخابی جائزے کے مطابق برطانوی عوام یونین کے ساتھ رہنے کے بجائے اس سے نکلنے کے حوالے سے زیادہ پرجوش ہیں اور 44 فیصد یونین سے علیحدگی پر خوش ہوں گے جبکہ 28 فیصد نے یونین کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔