سورج کی روشنی میں چاندی کی طرح چمکتے ہوئے گلیشیئر،جو جرمنی سے لے کر افریقہ کی بلند ترین چوٹیوں پر پھیلے ہوئے ہیں، نہ صرف حیات کی افزائش کرتے ہیں بلکہ ان سے کئی ایک کے ساتھ مقامی آبادیوں کے عقائد بھی وابستہ ہیں اور وہ سیاحت کے شعبے کی آمدنی کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔
لیکن آب و ہوا کی تبدیلی اور کرہ ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت بڑی تیزی سے برف کی اس چادر کو نگل رہا ہے۔ صدیوں سے موجود کئی گلیشیئر غائب ہو چکے ہیں اور باقی ماندہ اس رفتار سے پگھل رہے ہیں کہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں پہاڑوں کی بلند و بالا چوٹیاں برف سے خالی ہو کر موسم خزاں کے ٹندمنڈ درختوں کی طرح دکھائی دینے لگیں گی۔
گلیشیئرز پگھلنے کا عمل کسی ایک علاقے یا خطے تک محدود نہیں ہے۔ یہ پگھلاؤ افریقہ سے لے کر یورپ اور بحر منجمد تک ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ اس کا نظارہ براعظم افریقہ میں یوگنڈا اور جمہوریہ کانگو کے سرحدی پہاڑی سلسلے میں بھی کرسکتے ہیں جہاں اب ہرے بھرے درخت ہواؤں کے ساتھ جھومتے نظر آتے ہیں، وہاں کبھی 40 سے زیادہ گلیشیئرز سورج کی کرنوں میں چاندی کی طرح جھلملاتے تھے۔ سن 2005 میں ان کی تعداد نصف سے بھی گھٹ چکی تھی۔ پگھلاؤ کے اس عمل میں ہر گزرتے برس کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے کا آخری گلیشیئر بھی 20 سال کے اندر غائب ہو جائے گا۔
گلیشیئر کے غائب ہونے کا مطلب سادہ لفظوں میں یوگنڈا کے لیے ایک انتہائی مشکل اور کھٹن دور کا آغاز ہے، کیونکہ وہ اپنی بجلی کی نصف ضروریات پن بجلی سے حاصل کرتا ہے۔ اور اس کے بجلی گھر گلیشیرز سے حاصل ہونے والے پانی کے مسلسل بہاؤ پر انحصار کرتے ہیں۔
لندن یونیورسٹی کالج میں ہائیڈروجیولوجی کے پروفیسر رچرڈ ٹیلر کہتے ہیں کہ پن بجلی گھر پانی کے ہموار اور مسلسل بہاؤ پر زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔
آئیے اب افریقہ سے یورپ کی طرف چلتے ہیں۔ جرمنی اور آسٹریا کی سرحد پر کبھی پانچ گلیشیئرز ہوا کرتے تھے۔ اب وہاں صرف نصف مربع کلومیٹر کے علاقے میں برف باقی رہ گئی ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر برف کی موجودہ مقدار کا موازنہ 1850 کے عشرے سے کیا جائے تو یہ اس کے مقابلے میں 88 فی صد سے زیادہ کمی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بچی کھچی برف بھی آئندہ دس سے پندرہ برسوں میں مکمل طور پر پگھل جائے گی۔
میونخ میں واقع باویرین اکیڈمی آف سائنسز اینڈ ہیومینٹیز کے ایک سینئر سائنس دان کرسٹوف مائر کہتے ہیں کہ یہ سیاحت کی مقامی صنعت کے لیے بری خبر ہے جو زیادہ تر گلیشیئرز پر انحصار کرتی ہے۔
یہی مسئلہ تنزانیہ کا بھی ہے، جہاں پہاڑی سلسلے کلیمن جارو کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی چوٹیوں پر سے 90 فی صد تک برف پگھل چکی ہے۔ اس پہاڑ کا شمار براعظم افریقہ کے سب سے اونچے پہاڑ اور ملک کے اہم ترین سیاحتی مرکز کے طور پر ہوتا ہے۔ اس پہاڑ کی سیاحت پر آنے والے تنزانیہ کی مجموعی قومی آمدنی میں تقریباً 11 فی صد حصہ ڈالتے ہیں۔ اس پہاڑ کی چوٹیوں پر برف کے غائب ہونے کا انداز بہت مختلف ہے۔ یہاں برف پگھل نہیں رہی بلکہ براہ راست بخارات بن کر اوجھل ہو رہی ہے۔
SEE ALSO: گرین لینڈ کی برفانی تہہ زیادہ تیزی سے پگھل رہی ہے: رپورٹآسٹریا کی یونیورسٹی آف آنس برک کے گلیشیئرز کے ایک ماہر رینز پرنز کہتے ہیں کہ برف کا یوں غائب ہونا، ان مقامی آبادیوں کے لیے بہت بڑا نقصان ہے جن کے نزدیک ان گلیشیئرز کی ایک روحانی اہمیت بھی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مقامی عقائد اور روایات کے مطابق ان پہاڑوں پر برف خدا کی ایک کرسی ہے۔ اور جب یہاں برف نہیں رہے گی تو ان کے عقائد اور روحانی زندگیوں پر جو اثرات مرتب ہوں گے، ان کے بارے میں فی الحال سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
ہر گلیشیئر کی ایک سائنسی اہمیت بھی ہوتی ہے۔ گلیشیئر سال بہ سال گرنے والی برف کی پرتوں سے بنتے ہیں۔ وہ ہزاروں سال پرانے ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کے اندر موسم اور آب و ہوا سے متعلق ہزاروں برسوں کی تاریخ محفوظ ہوتی ہے۔ وہ ماحول کی ساخت، درجہ حرارت کی تبدیلی، وہاں موجود نباتات اور جراثیمی حیات کے متعلق اہم معلومات کا خزانہ ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے تیزی سے پگھلنے سے یہ خزانہ ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے گلیشیئرز ختم ہوتے جائیں گے، مقامی ماحولیاتی نظام بھی تبدیل ہوتا جائے گا-
Your browser doesn’t support HTML5
دنیا کے بہت سے گلیشیئر کئی ممالک کے لیے میٹھے پانی کے اہم ذریعہ ہیں، مگر چھوٹے ہو جانے کے بعد اب پانی کا یہ اہم ذریعہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی ایک مثال پیرو ہے، جس کے گلیشیئر کا تقریباً 30 فی صد حصہ 2016 تک پگھل چکا تھا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تمام گلیشیئرز پگھلنے سے زمین کا قدرتی توازن بگڑ سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف جھیلوں اور دریاؤں کو پانی کی فراہمی رک جائے گی بلکہ انسانی زندگی کے معمولات میں بھی خلل پڑے گا۔ جب یہ سارا پانی سمندروں میں پہنچے گا تو ان کی سطح میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا جس سے ساحلی آبادیاں غرق ہو جائیں گی اور کئی ملک اور جزیرے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔
(اس خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)