ماہرین ِآثار ِ قدیمہ کو توقع ہے کہ تقریباً ایک ہزار برس قبل گم ہو جانے والے قدیم مایا تہذیب کے اس شہر کی دریافت سے اس زمانے اور علاقے کی تہذیب کو سمجھنے میں مدد دے گی۔
واشنگٹن —
ماہرین ِ آثار ِ قدیمہ نے مشرقی میکسیکو میں مایا تہذیب کا ایک ایسا قدیم شہر دریافت کیا ہے جو صدیوں سے جنگلات میں چھپا ہوا تھا۔ ماہرین کو توقع ہے کہ تقریباً ایک ہزار برس قبل گم ہو جانے والے اس شہر کی دریافت اس زمانے اور علاقے کی تہذیب کو سمجھنے میں مدد دے گی۔
ماہرین ِ آثار ِ قدیمہ کی جس ٹیم نے یہ شہر دریافت کیا اس کی سربراہی آئیون پراک کر رہے تھے جو پیشے کے اعتبار سے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ اس ٹیم نے اس شہر کو ’چیکٹن‘ کا نام دیا ہے جس کے معنی ’لال چٹان‘ یا ’بڑی چٹان‘ کے ہیں۔
آئیون پراک کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ یہ شہر قدیم گوئٹے مالا میں مایا تہذیب کے شہر ’ٹکل‘ سے کم آبادی والا ہو اور یہاں پر اندازاً 30 سے 40 ہزار لوگ بستے ہوں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
ماہرین ِ آثار ِ قدیمہ کی ٹیم کی اس دریافت کو میکسیکو کے قومی ادارہ برائے بشریات و تاریخ کی جانب سے منظور کیا گیا ہے جبکہ اس تحقیق کے لیے فنڈز نیشنل جیوگرافک سوسائٹی اور دیگر دو یورپی کمپنیوں نے مہیا کیے تھے۔
آئیون پراک کے مطابق یہ شہر 54 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور چیٹومل شہر سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ان کے الفاظ، ’یہ پورا علاقہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔‘
گو کہ اس علاقے کے بارے میں معلومات دنیا بھر میں آثار ِ قدیمہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت کو دستیاب نہیں لیکن آئیون پراک کہتے ہیں کہ انہیں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ تقریباً 30، 20 سال قبل کچھ لوگوں نے یہاں آنے کی کوشش کی۔ آئیون پراک کے مطابق، ’وہاں پر ہمیں لکڑی کے کاٹنے اور گوند کشید کرنے کے شواہد ملے کیونکہ وہاں کے درختوں کو کاٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن جن لوگوں نے یہ کوشش کی انہوں نے اس بارے میں کسی کو آگاہ نہیں کیا۔‘
15 برس قبل قومی ادارہ برائے تعلیم اور حیاتیاتی تنوع کی جانب سے اس علاقے کی فضائی تصاویر لی گئی تھیں۔ آئیون پراک اور ان کی ٹیم نے ان تصاویر کو دیکھا اور کھنڈرات کی نشاندہی کرکے اس کا نقشہ بنایا۔
اس قدیم شہر تک پہنچنے کے لیے انہیں جنگل میں سے 16 کلومیٹر کا راستہ بنانا پڑا۔ جبکہ نقشہ بنانے میں اس ٹیم کو چھ ہفتے کا عرصہ لگا۔
آئیون پراک کا کہنا ہے کہ کھنڈرات دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ’چیکٹن‘ اپنے زمانے کا ایک بہت اہم شہر تھا اور اسے گیارہویں صدی میں موسماتی تغیر، جنگوں یا کسی اور وجہ کے باعث خالی کرنا پڑا۔
ماہرین ِ آثار ِ قدیمہ کی جس ٹیم نے یہ شہر دریافت کیا اس کی سربراہی آئیون پراک کر رہے تھے جو پیشے کے اعتبار سے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ اس ٹیم نے اس شہر کو ’چیکٹن‘ کا نام دیا ہے جس کے معنی ’لال چٹان‘ یا ’بڑی چٹان‘ کے ہیں۔
آئیون پراک کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ یہ شہر قدیم گوئٹے مالا میں مایا تہذیب کے شہر ’ٹکل‘ سے کم آبادی والا ہو اور یہاں پر اندازاً 30 سے 40 ہزار لوگ بستے ہوں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
ماہرین ِ آثار ِ قدیمہ کی ٹیم کی اس دریافت کو میکسیکو کے قومی ادارہ برائے بشریات و تاریخ کی جانب سے منظور کیا گیا ہے جبکہ اس تحقیق کے لیے فنڈز نیشنل جیوگرافک سوسائٹی اور دیگر دو یورپی کمپنیوں نے مہیا کیے تھے۔
آئیون پراک کے مطابق یہ شہر 54 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور چیٹومل شہر سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ان کے الفاظ، ’یہ پورا علاقہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔‘
گو کہ اس علاقے کے بارے میں معلومات دنیا بھر میں آثار ِ قدیمہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت کو دستیاب نہیں لیکن آئیون پراک کہتے ہیں کہ انہیں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ تقریباً 30، 20 سال قبل کچھ لوگوں نے یہاں آنے کی کوشش کی۔ آئیون پراک کے مطابق، ’وہاں پر ہمیں لکڑی کے کاٹنے اور گوند کشید کرنے کے شواہد ملے کیونکہ وہاں کے درختوں کو کاٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن جن لوگوں نے یہ کوشش کی انہوں نے اس بارے میں کسی کو آگاہ نہیں کیا۔‘
15 برس قبل قومی ادارہ برائے تعلیم اور حیاتیاتی تنوع کی جانب سے اس علاقے کی فضائی تصاویر لی گئی تھیں۔ آئیون پراک اور ان کی ٹیم نے ان تصاویر کو دیکھا اور کھنڈرات کی نشاندہی کرکے اس کا نقشہ بنایا۔
اس قدیم شہر تک پہنچنے کے لیے انہیں جنگل میں سے 16 کلومیٹر کا راستہ بنانا پڑا۔ جبکہ نقشہ بنانے میں اس ٹیم کو چھ ہفتے کا عرصہ لگا۔
آئیون پراک کا کہنا ہے کہ کھنڈرات دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ’چیکٹن‘ اپنے زمانے کا ایک بہت اہم شہر تھا اور اسے گیارہویں صدی میں موسماتی تغیر، جنگوں یا کسی اور وجہ کے باعث خالی کرنا پڑا۔