امریکہ کی تاریخ میں پانچ بار ایسا ہوا ہے کہ کوئی صدارتی امیدوار انتخابات میں عوام کے اکثریتی ووٹ لینے میں تو کامیاب نہیں ہوا لیکن منصبِ صدارت تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
امریکہ میں صدارتی انتخابات میں صدر کا انتخاب براہِ راست ووٹنگ سے نہیں ہوتا بلکہ 50 ریاستوں میں ووٹرز ڈیلیگیٹس یعنی مندوبین کا انتخاب کرتے ہیں۔ جس صدارتی امیدوار کے مندوبین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے وہ وائٹ ہاؤس کا مکین بن جاتا ہے۔
اس کی حالیہ مثال امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ جنہوں نے 2016 کے انتخابات میں حریف امیدوار ڈیموکریٹک پارٹی کی ہیلری کلنٹن سے 30 لاکھ کے لگ بھگ کم ووٹ لیے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے تھے۔ کیوں کہ ان کے حاصل کردہ مندوبین کی تعداد ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں زیادہ تھی۔
امریکہ کی تاریخ میں پانچ بار ایسا ہوچکا ہے کہ کوئی امیدوار اکثریتی پاپولر ووٹ تو نہیں حاصل کر سکا لیکن وہ امریکہ کا صدر بن گیا۔
جان کوئنسی ایڈمز (1824)
انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں امریکہ میں ہونے والے انتخابات میں انڈریو جیکسن نے پاپولر ووٹ بھی اپنے نام کیا تھا جب کہ الیکٹورل کالج بھی جیت گئے تھے۔ تاہم وہ اکثریت حاصل نہیں کر سکے تھے۔ اسی وجہ سے اس انتخاب کا معاملہ ایوانِ نمائندگان میں بھیج دیا گیا تھا۔
ایوانِ نمائندگان میں اینڈریو جیکسن کی طرح ان کی جماعت ڈیموکریٹک ری پبلکن کے تین دیگر امیدوار جان کوئنسی ایڈمز، ویلیم کرافورڈ اور ہنری کلے بھی میدان میں تھے۔ ان میں سے ہنری کلے نے جان کوئنسی ایڈمز کی حمایت کر دی تھی جس کے باعث وہ صدر منتخب ہو گئے تھے۔ بعد ازاں صدر جان کوئنسی ایڈمز نے ہنری کلے کو وزیرِ خارجہ مقرر کر دیا تھا۔
اینڈریو جیکسن نے اس معاملے پر سینیٹر شپ چھوڑ دی تھی۔ بعد ازاں وہ 1828 میں ایک بار پھر صدارتی الیکشن میں میدان میں آئے تھے اور اس بار انہوں نے با آسانی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔
ردرفرڈ ہیز (1876)
ان انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سیمیول ٹیلڈن نے ری پبلکن پارٹی کے ردرفرڈ ہیز کو دو لاکھ سے زائد ووٹوں سے شکست دی تھی۔ ان کو الیکٹورل کالج میں 185 مندوبین کی حمایت کی ضرورت تھی لیکن ان کو 184 مندوبین کی حمایت ملی تھی۔ جب کہ ان کے حریف ردرفورڈ ہیز کو 165 مندوبین کی حمایت حاصل تھی۔
فلوریڈا، لوزیانا، اوریگن اور ساؤتھ کیرولائنا کے 20 ووٹوں پر تنازع ہو گیا تھا۔ اس پر کانگریس نے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا جس میں دونوں جماعتوں کے ارکان شریک تھے۔ اس کمیشن کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس تنازع کو حل کرے۔
اس کمیشن نے صدر کے حلف اٹھانے کی تاریخ سے تین دن قبل اپنا فیصلہ سنایا تھا اور کم ووٹ لینے والے امیدوار ررفرڈ ہیز کو کامیاب قرار دے دیا تھا۔ کمیشن کا یہ فیصلہ ڈیموکریٹک پارٹی نے اس شرط پر قبول کرلیا تھا کہ نو منتخب صدر جنوبی ریاستوں سے وفاقی فورسز کو واپس بلا لیں گے۔ واضح رہے کہ خانہ جنگی کے بعد سے جنوبی ریاستوں میں وفاقی فورسز تعینات تھیں جس پر اس وقت جنوبی ریاستوں میں مقبول ڈیموکریٹ پارٹی کو سخت اعتراضات تھے۔
بینجمن ہیریسن (1888)
ان انتخابات میں بدعنوانی اور دیگر الزامات سامنے آئے تھے۔ یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ ووٹ خریدے گئے جب کہ سیاہ فام رائے دہندگان کو دباؤ میں رکھا گیا۔
الزامات اور تنازعات سے بھرپور انتخابی مہم کے بعد ڈیموکریٹک امیدوار صدر گروور کلیولینڈ نے اپنے حریف ری پبلکن پارٹی کے امیدوار بینجمن ہیریسن سے 90 ہزار ووٹ زیادہ لیے تھے۔ لیکن وہ الیکٹورل کالج میں ان سے 65 ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ صدر گروور کلیولینڈ کے 168 کے مقابلے پر ہیریسن کو 233 ڈیلیگیٹس کی حمایت حاصل ہوئی تھی۔
جارج ڈبلیو بش (2000)
ری پبلکن امیدوار جارج ڈبلیو بش اپنے حریف ڈیموکریٹ امیدوار الگور سے پانچ لاکھ ووٹ پیچھے تھے۔ لیکن الیکٹورل کالج میں مقابلہ سخت تھا۔ اس کا فیصلہ فلوریڈا سے آنے والے نتائج پر تھا جہاں ووٹوں کی دوبارہ گنتی بھی تنازع کا شکار ہو گئی تھی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے دوبارہ گنتی کا عمل روک دیا تھا اور جارج بش کو فاتح قرار دے دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سپریم کورٹ نے ٹیکساس کے سابق گورنر جارج بش کے حق میں فیصلہ دیا جس کے بعد ان کے الیکٹورل ڈیلیگیٹس کی تعداد 271 ہو گئی جب کہ ان کے حریف الگور 266 ڈیلیگیٹس کے ساتھ شکست کھا گئے۔
ڈونلڈ ٹرمپ (2016)
ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ان انتخابات میں الیکٹورل کالج میں 304 مندوبین کی حمایت حاصل کی جب کہ ان کی حریف ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن کو 227 ڈیلیگیٹس کی حمایت حاصل ہوئی تھی۔ حالاں کہ ہیلری کلنٹن کو ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں 29 لاکھ کے لگ بھگ زیادہ ووٹ ملے تھے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق امریکہ کی تاریخ میں صدر منتخب ہونے والے امیدواروں میں ڈونلڈ ٹرمپ پاپولر ووٹ میں سب سے زیادہ فرق سے منتخب ہونے والے امیدوار ہیں۔