لگژری گھڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے پاس ان دنوں اتنے نئے آرڈرز آئے ہوئے ہیں کہ انہیں اپنی نئی مصنوعات متعارف کرانے کی فرصت ہی نہیں مل رہی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق 2020 میں کرونا وبا سے شدید متاثر ہونے کے بعد جب گزشتہ برس معیشت میں بحالی کے آثار نمایاں ہونے لگے تو گھڑی سازی کی صنعت میں بھی تیزی آگئی تھی۔ اگرچہ یوکرین اور روس کے حملے نے مارکیٹ میں کچھ بے یقینی ضرور پیدا کی ہے لیکن لگژری واچز کی صںعت تاحال ان حالات سے متاثر نہیں ہوئی ہے۔
پرتعیش اور بیش قیمت مصنوعات تیار کرنے والے فرانسیسی گروپ ’ہرمیز‘ کا گزشتہ برس سب سے منافع بخش کاروبار لگژری گھڑیوں کا ہی رہا تھا۔ اس گروپ کی قیمتی گھڑیوں کی فروخت میں گزشتہ برس 73 فی صد اضافہ ہوا تھا۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس خاص طور پر مرد حضرات کے لیے قیمتی گھڑیوں کی مانگ کئی گنا بڑھی تھی۔
ہرمیز گروپ کے نائب صدر گیوم دی سین کا کہنا ہے کہ انہیں مزید گھڑیاں بنانے کا وقت ملتا تو ان کی فروخت میں مزید اضافہ ہوسکتا تھا۔ ان کے بقول نئی قیمتی گھڑیوں کی طلب ہماری پیداواری صلاحیت سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 2022 میں کمپنی اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لیے مزید سرمایہ کاری کرے گی۔
گھڑیاں بنانے والے ایک اور معروف برینڈ ’اورس‘ کا کہنا ہے کہ طلب بڑھنے کی وجہ سے انہیں اپنے نئے کلیکشن اور ماڈلز متعارف کرانے میں تاخیر کرنا پڑ رہی ہے۔
SEE ALSO: ڈارون کی دو نوٹ بکس کی پراسرار گمشدگی کے 20 سال بعد حیران کن واپسیاس برینڈ کی گھڑیوں کی قیمتیں تقریباً دو ہزار سے 7710 ڈالر کے درمیان ہوتی ہیں۔ لیکن طلب میں اضافے کی وجہ سے کمپنی رواں برس موسمِ سرما میں اپنی نئی مصنوعات کی لانچنگ کو مؤخر کررہی ہے۔
طویل انتظار
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے بعد عالمی معاشی حالات میں بے یقینی پیدا ہوئی ہے۔ روس کے امیر ترین افراد قیمتی گھڑیوں کے بڑے خریدار ہیں۔ گو کہ گھڑی سازی کی صنعت تاحال اس بحران اور بے یقینی سے متاثر نہیں ہوئی ہے لیکن انڈسٹری سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے جنگ کے اثرات سے نبٹنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔
گھڑیوں کے ایک بڑے برینڈ ’ایچ موزر اینڈ سی‘ کے سی ای او کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پہلے ہی بہت آرڈرز موجود ہیں۔ اس لیے جو گھڑیاں روسی خریداروں کو نہیں پہنچائی جاسکیں گی انہیں دیگر خریداروں کو دے دیا جائے گا۔
یہ کمپنی ہر سال دو ہزار گھڑیاں بناتی ہے جن کی اوسط قیمت 48 ہزار ڈالر سے زائد ہوتی ہے۔ گزشتہ برس طلب میں اضافے کی وجہ سے کمپنی کی 2022 کے لیے تیار ہونے والی گھڑیاں پہلے ہی فروخت ہوچکی ہیں۔
اس لیے سی ای او کا کہنا ہے عالمی معاشی منڈیوں میں بے یقینی کی صورتِ حال ضرور ہے لیکن ان کی کمپنی جیسے بریںڈز فی الوقت کسی بڑے دھچکے سے محفوظ ہیں۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں مال دار افراد میں قیمتی گھڑیاں شوق کے طور پر تو پہنی جاتی ہیں لیکن بعض افراد انہیں سرمایہ کاری یا سرمائے کو محفوظ بنانے کے لیے بھی خریدتے ہیں۔