آج ہم جو پکوان بہت شوق سے کھاتے ہیں اور ان تک ہماری رسائی بھی آسان ہے۔ ان میں سے کئی پکوان ایسے ہیں جو کبھی صرف شاہی دسترخوان کی زینت ہوا کرتے تھے۔
کئی پکوان صدیوں کا سفر طے کر کے ہم تک پہنچے ہیں اور ان کی تاریخ دراصل کئی سلطنتوں کے عروج و زوال کی بھی ہیں۔
اس اعتبار سے کھانے پکانے کی ترکیبوں کی ایک کتاب کسی خطے کی تاریخ سے متعلق کتنا اہم حوالہ ہو سکتی ہے؟ پانچ سو سال قبل مرتب ہونے والی کھانے پکانے کی تراکیب کی کتاب ’نعمت نامہ‘ سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اس کتاب کے بارے میں جاننے سے قبل ہمیں ماضی میں جانا ہو گا۔ سن 1398 میں تیمور لنگ کے حملوں کے بعد دہلی سلطنت بکھر گئی تھی۔ کئی خطوں میں خود مختار ریاستیں بن رہی تھیں۔ 1401 میں دہلی سلطنت کے مقرر کردہ گورنر دلاور خان نے بھارت کی موجودہ ریاست مدھیہ پردیش اور راجستھان کے علاقوں پر مشتمل صوبے مالوہ کو خود مختار سلطنت بنانے کا اعلان کیا اور بعد میں اس کا دارالحکومت ’مانڈو‘ کو بنایا۔
ان کے پوتے غیاث الدین نے 1469 میں ان کی گدی سنبھالی اور 30 سال تک مالوہ کے حکمران رہے۔
غیاث الدین شاہی عیش و عشرت کے دلدادہ تھے۔ انہوں نے اپنے محل میں موسیقاروں، ماہر کھانا پکانے والوں اور مصوروں کو جمع کر رکھا تھا۔
اس کے علاوہ محل میں سیکڑوں خواتین تھیں جنھیں کُشتی اور کھانا پکانے کی تربیت دی گئی تھی۔ غیاث الدین نے اپنی حفاظت کے لیے 500 حبشی کنیزوں پر مشتمل ایک خصوصی دستہ بھی بنایا تھا۔
اس دور کی تاریخ کے مطابق غیاث الدین کی انہی سرگرمیوں اور اہتمام کی وجہ سے اس دور میں مانڈو کو ’شادی آباد‘ یعنی خوشیوں کا شہر کہا جاتا تھا۔
برطانوی مصنف کولین ٹیلر سین نے اپنی کتاب Feasts and Fasts; A history of food in India میں لکھا ہے کہ اپنے ذوق اور پُرتعیش طرز زندگی کا ریکارڈ محفوظ رکھنے کے لیے غیاث شاہ نے ’نعمت نامہ‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کرائی تھی۔
یہ کتاب 1495ء سے 1505ء کے دوران مرتب کی گئی اور اس میں کھانے پینے کی مختلف اشیا کی سیکڑوں تراکیب جمع کی گئیں۔
یہ کتاب اس اعتبار سے بھی منفرد ہے کہ اس میں کھانے کی تراکیب کے ساتھ مختلف کھانوں کے تیاری کے مراحل کی ہاتھ سے بنائی گئی 50 تصاویر بھی شامل ہیں۔
ان تصاویر میں غیاث شاہ اپنی منفرد انداز کی مونچھوں کی وجہ سے نمایاں دکھائی دیتے ہیں اور انہیں کھانے کی تیاری کی نگرانی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
'نعمت نامہ' کئی اعتبار سے ایک دلچسپ کتاب ہے۔ اس کے آغاز میں سلطنت کا بادشاہ ایک دوسرے ’بادشاہ‘ سے مخاطب ہے۔ لیکن دوسرا بادشاہ کون ہے۔ ٹیلر کولین کی کتاب کے ایک اقتباس میں اس سوال کا جواب ملتا ہے۔
کتاب کے آغاز میں غیاث شاہ لکھواتے ہیں کہ ''اے لال بیگوں (کاکروچوں) کے بادشاہ برائے مہربانی، یہ پکوانوں کی دنیا کے لیے کھانے کی تراکیب، کھانے، مٹھائیوں، مچھلی اور عرق گلاب سے عطریات کی تیاری کی تراکیب کا میرا تحفہ ہے، اسے کھائیے گا نہیں!۔''
کتاب کا آغاز اس طرح کیوں کیا گیا اس کے پیچھے بھی ایک دلچسپ وجہ ہے جس کا ذکر کچھ آگے چل کر آئے گا۔
کتاب میں شامل تراکیب پر جگہ جگہ اس طرح نشان دہی کی گئی ہے کہ 'یہ بہت لذیذ ہے' اور 'یہ غیاث شاہ کی پسندیدہ ہے۔'
اس میں جمع کی گئیں کھانے کی تراکیب کسی خاص ترتیب میں نہیں ہیں اور نہ ہی ہر ڈش کی پوری ترکیب بتائی گئی ہے بلکہ زیادہ تر صرف کسی پکوان میں استعمال ہونے والے اجزا درج کیے گئے ہیں۔
کتاب میں کھانے پکانے کے ساتھ ساتھ مختلف خوشبوؤں، چٹنیوں، دواؤں اور جسمانی توانائی بڑھانے والے کشتے تیار کرنے کی تراکیب بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ’نعمت نامہ‘میں کھانے کی تراکیب درج کرنے سے قبل بعض کھانوں اور بعض اشیا کو ایک ساتھ کھانے کے نقصانات بھی بیان کیے گئے ہیں جس میں دودھ کے ساتھ مچھلی کھانے، مولی، مونگ کی دال، پتوں والی سبزیاں، ترش پھل، نمک اور گوشت وغیرہ کے نقصانات بھی لکھے گئے ہیں۔
پانچ سو سال پہلے بھی مقبول چیزیں!
اس کتاب کی انفرادیت کے ساتھ اس کی تاریخی اہمیت پر تبصرہ کرنے والے مبصرین کا کہنا ہے اس میں شامل کھانوں کی تراکیب سے کئی دلچسپ حقائق کا علم بھی ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آج سے پانچ سو برس قبل بھی سموسہ، دال یا بیسن سے بننے والے 'بڑے' یاوڑا اور بیسن سے تیار ہونے والی کھنڈوی جیسی اشیا بھی اتنی ہی مقبول تھیں۔ اس کے علاوہ مانڈو کے دربار میں دال، کڑہی، رائتہ اور لسّی بھی پسند کی جاتی تھی۔
کولین ٹیلر سین نے ہندوستانی کھانے پر اپنی کتاب میں 'نعمت نامہ' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کتاب میں شامل معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ صدیوں میں ہندوستان کے کھانوں میں کس طرح تبدیلیاں آئی ہیں۔
مثال کے طور پر 'نعمت نامہ' میں نان، پوری اور چپاتی کا تذکرہ تو ملتا ہے لیکن اس میں پراٹھوں کا ذکر نہیں ہے۔
کولین ٹیلر نے 'نعمت نامہ' میں پراٹھوں کا تذکرہ نہ ہونے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ بعد کی ایجاد ہیں۔ اسی طرح اس کتاب میں چاول سے تیار ہونے والی درجنوں ڈشز کا تذکرہ ہے اور ان میں کھچڑی تک شامل ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس میں ’پلاؤ‘ کا ذکر نہیں۔
اس کے علاوہ نعمت نامہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آج مقبول ہونے والی کون کون سی ڈشز ایران اور وسطی ایشیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں 'شوربہ'، سیخ کباب، یخنی اور بریانی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
کھانے کی ڈشز کے ساتھ ساتھ نعمت نامہ میں مشروبات کی تراکیب بھی شامل ہیں اور اس میں شربت اور لسی کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔
ٹوٹکے اور ترکیبیں
سفر، جنگی مہم اور بیماری کے دوران پیش آنے والے مسائل کے لیے طبی ٹوٹکے بھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔ کھانے کی ایسی اشیا بتائی گئی ہیں جن کے استعمال سے آنکھوں کا موتیا ختم ہوجاتا ہے۔ پان کو گلے کی تکلیف کے لیے مؤثر بتایا گیا ہے۔ اسی طرح شکار کے دوران پانی اور مشروبات کو ٹھنڈا رکھنے کی مختلف ترکیبیں بھی دی گئی ہیں۔
’غریبی‘ کھانے
بادشاہ کے پسندیدہ پکوانوں کے ساتھ ساتھ بادشاہ کے لیے دلیہ وغیرہ جیسے کچھ 'غریبی' کھانے بھی اس میں شامل ہیں۔ بادشاہ جب روزانہ پُرتعیش کھانے کھاکر اکتا جاتے تھے تو منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے انہیں 'غریبوں کا کھانا' پیش کیا جاتا تھا۔
غریبی کھانوں کے عنوان سے جو ڈشز اس فہرست میں شامل ہیں وہ بظاہر بہت سادہ اور بے ذائقہ محسوس ہوتی ہیں لیکن ان کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بھلے ہی 'غریبی' کا نام دیا گیا ہو لیکن انہیں بادشاہ کے شایانِ شان رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اس فہرست میں ایک سادہ سے سموسے کی ترکیب دی گئی ہے جس میں ہرن کا گوشت استعمال کیا جاتا تھا۔
’لال بیگ بادشاہ‘ کا راز
پکوانوں، مشروبات اور دیگر باتوں کے تذکرے کے بعد کتاب کے آخر میں پھر 'لال بیگ بادشاہ' سے اپیل کی گئی ہے۔ یہ ایک راز لگتا ہے کہ آخر کتاب کے شروع اور آخر میں یہ اپیل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
نعمت نامہ کی قدیم قلمی نسخے پر تحقیق کرنے والی اسکالر نورا ایم ٹٹلی( Norah M Titley) نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سولہویں صدی تک ہندوستان میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ لال بیگ ان کاغذوں یا مسودوں کو نقصان نہیں پہنچاتے جن پر ان کے 'بادشاہ' کا نام لکھا گیا ہو۔
یہ کتاب کیسے دریافت ہوئی
سن 1500ء میں غیاث شاہ کے بعد ان کے بیٹے ناصر الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 1562 میں مغل بادشاہ اکبر نے مالوہ کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ اس کے بعد 'نعمت نامہ' کا یہ مسودہ مغلوں کے کتب خانے میں شامل ہو گیا ہو گا۔ لیکن اس حوالے سے یقینی معلومات دستیاب نہیں۔
برٹش لائبریری میں موجود 'نعمت نامہ' کے نسخے کے بارے میں غالب امکان یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ 1799ء میں برطانویوں نے سلطان ٹیپو کی لائبریری سے حاصل کیا ہو گا۔ 1959ء میں 'نعمت نامہ' کا یہ نسخہ ایک بار پھر دریافت ہوا۔
برٹش لائبریری میں اسلامی فنون کی ماہر نورا ایم ٹٹلی نے 2004 میں 'نعمت نامہ' کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور ہندوستان میں سولہویں صدی کے دوران درباری آداب سے متعلق بہت سے دلچسپ جزئیات پر گہرائی سے تبصرہ کیا۔
آج اس کتاب کو ہندوستان میں پکوانوں کی تاریخ کے اہم ماخذ اور اس فن کی قدیم ترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔