امریکی انتظامیہ کے مسلم، عرب، فلسطینی امریکیوں کے ساتھ رابطے؛ اہم رہنماؤں کو نہ بلانے پر تنقید کا سامنا

  • امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس کے دفتر کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے عرب، مسلم رہنماؤں سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔
  • نائب صدر کے قومی سلامتی کے مشیر فل گورڈن نے مسلم، عرب رہنماؤں اور فلسطینی امریکیوں سے ورچوئل یعنی آن لائن ملاقاتیں کی ہیں۔
  • بڑے کمیونٹی گروپس کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز، مسلم پبلک افیئرز کونسل سمیت دیگر فلسطینیوں کے حامی گروپس کو ان ملاقاتوں میں مدعو نہیں کیا گیا۔

امریکہ کی بڑی مسلم، عرب تنظیموں اور فلسطینیوں کے حامی گروہوں نے گلہ کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں تنازع کے حل کے لیے نائب صدر کاملا ہیرس کے دفتر کی جانب سے کمیونٹی سے رابطوں میں اُنہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

امریکہ کی نائب صدر اور آئندہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک صدارتی اُمیدوار کاملا ہیرس کے دفتر کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے عرب، مسلم رہنماؤں سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔

بدھ کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ انتظامیہ نے تنازع کے حل کی کوششوں کے سلسلے میں مسلم عرب اور فلسطینی امریکی کمیونٹی سے رابطہ کیا ہے۔

نائب صدر کے قومی سلامتی کے مشیر فل گورڈن نے مسلم، عرب رہنماؤں اور فلسطینی امریکیوں سے ورچوئل یعنی آن لائن ملاقاتیں کی ہیں۔ تاکہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے انتظامیہ کی کوششوں سے آگاہ کیا جا سکے۔

یہ ملاقاتیں غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کی حمایت کی وجہ سے انتظامیہ اور عرب مسلم کمیونٹی کے درمیان پیدا ہونے والی دُوریاں کم کرنے کی کوشش قرار دی جا رہی ہیں۔

لیکن بڑے کمیونٹی گروپس کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز، مسلم پبلک افیئرز کونسل سمیت دیگر فلسطینیوں کے حامی گروپس کو ان ملاقاتوں میں مدعو نہیں کیا گیا۔ یہ گروپس غزہ جنگ سے متعلق امریکی پالیسی میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے گروپس بشمول میک اسپیس، دی دارالحجرہ اسلامک سینٹر، مصطفیٰ سینٹر اور دیانیٹ سینٹر آف امریکہ کے نمائندوں کو بھی نہیں بلایا گیا۔

عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ کے صدر جیمز زوگبی دیگر آٹھ افراد کے ساتھ اس ملاقات میں شریک تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ میٹنگ بہت پریشان کن تھی کیوں کہ اس میں متعلقہ اسٹیک ہولڈرز مدعو نہیں تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں زوگبی کا کہنا تھا کہ ہمیں بتایا گیا تھا یہ عرب امریکیوں اور مسلمانوں کی میٹنگ ہے۔ لیکن وہاں کوئی فلسطینی رہنما نہیں تھا، وہاں کچھ فلسطینی امریکی تھے۔ لیکن فلسطینی امریکیوں کی نمائندگی کرنے والی کوئی تنظیم نہیں تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ بظاہر ایک رسمی کارروائی تھی۔ لہذٰا انتظامیہ نے کمیونٹی کے اُن افراد کو نہ بلا کر ایک اچھا موقع ضائع کیا۔

وائٹ ہاؤس اور نائب صدر کے دفتر نے اس حوالے سے وائس آف امریکہ کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ تاہم اُن کی مہم کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کاملا ہیرس ہر ووٹ حاصل کرنے، امریکہ کو متحد کرنے اور تمام امریکیوں کی صدر بننے کے لیے پُرعزم ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اپنے کریئر کے دوران کاملا ہیرس ملک کی مسلم کمیونٹی کی حمایت میں ثابت قدم رہی ہیں۔ تاہم وہ غزہ میں جنگ بندی کے ایسے حل کی خواہاں ہے جس میں اسرائیل کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے۔ یرغمال رہا ہوں اور غزہ کے عوام کی مشکلات کم ہوں۔

امریکی انتخابات میں عرب مسلم کمیونٹی کا کردار

ایک نئے سروے کے مطابق صدارتی اُمیدواروں کاملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کو بظاہر عرب امریکیوں کی برابر حمایت حاصل ہے۔

'عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ' کی جانب سے بدھ کو ایک سروے کے نتائج جاری کیے گئے ہیں جن میں 500 عرب امریکیوں کے سروے میں 42 فی صد نے ٹرمپ جب کہ 41 فی صد نے کاملا ہیرس کی حمایت ظاہر کی۔

سروے میں سامنے آیا ہے کہ غزہ جنگ سے متعلق انتظامیہ کی پالیسی نے عرب امریکیوں کو ڈیمو کریٹک پارٹی کی حمایت سے دُور کیا ہے۔ روایتی طور پر یہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

گو کہ عرب امریکی کمیونٹی کی تعداد بہت کم ہے، تاہم ماہرین کے مطابق بعض ریاستوں میں یہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جن میں 'بیٹل گراؤنڈ' ریاست مشی گن بھی شامل ہے جہاں عرب امریکی کمیونٹی کی اکثریت آباد ہے۔ سن 2020 میں صدر بائیڈن نے ایک لاکھ 54 ہزار ووٹوں کی برتری سے یہاں کامیابی حاصل کی تھی۔

سن 2016 کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے 11 ہزار سے بھی کم ووٹوں سے ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی۔

بائیڈن انتظامیہ کہ جانب سے اسرائیل کی حمایت کے بعد مشی گن میں ایک لاکھ ووٹرز نے ڈیموکریٹک پرائمری الیکشن میں 'ان کمیٹڈ' رہنے کا اعلان کیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ان ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

وی او اے کی اقوامِ متحدہ کی نمائندہ مارگریٹ بیشیر، وی او اے کے رپورٹرس عزیز رحمان اور بیگم ارسوز نے اس رپورٹ میں تعاون کیا ہے۔