مالدیپ کے سابق صدر محمد ناشید نے عالمی برادری سے اپنے ملک پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سابق صدر کا دعویٰ ہے کہ ان سے ملکی انتظامیہ نے جبری استعفیٰ لیا تھا جس کے بعد سے وہ خود ساختہ جلاوطنی پر بیرونِ ملک مقیم ہیں ۔
بھارت کے وزیرِ اعظم من موہن سنگھ نے حال ہی میں محمد ناشید سے ملاقات کرنے کا اعلان کیا ہے جسے عالمی حمایت کے حصول کے لیے جاری سابق صدر کی کوششوں کی ایک اہم کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔
لیکن بھارتی وزیرِاعظم کے اس فیصلے نے مالدیپ کی موجودہ حکومت کو برہم کردیا ہے۔
جزیرہ نما ملک کے موجودہ صدر محمد وحید کے ایک ترجمان نے 'وائس آف امریکہ' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بھارتی وزیرِاعظم نے صدر وحید کے ساتھ ملاقات سے قبل محمد ناشید سے ملاقات کی تو موجودہ صدر کو "مایوسی" ہوگی۔
واضح رہے کہ مالدیپ کے موجودہ صدر آئندہ ماہ بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں لیکن صدارتی ترجمان کے مطابق بھارتی وزیرِاعظم اور محمد ناشید کے درمیان ملاقات ہونے کی صورت میں صدر وحید اپنے ارادے پر نظرِ ثانی کرسکتے ہیں۔
محمد ناشید فروری میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے اور ان کا موقف ہے کہ ان سے بندوق کی نوک پر جبری استعفیٰ لیا گیا تھا۔ محمد ناشید اس عمل کی ذمہ داری موجودہ دیگر افراد کے علاوہ صدر وحید پہ بھی ڈالتے ہیں جو اس وقت نائب صدر تھے۔
محمد ناشید عالمی برادری پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ملک میں نئے انتخابات کے جلد انعقاد کے لیے صدر وحید کی حکومت پر دباؤ ڈالے۔
مالدیپ کی موجودہ حکومت نے آئندہ عام انتخابات جولائی 2013ء میں کرانے کا اعلان کیا ہے اور اس کا موقف ہے کہ ملکی آئین اس تاریخ سے قبل انتخابات کی اجازت نہیں دیتا۔
یاد رہے کہ 2008ء میں صدر بننے والے محمد ناشید مالدیپ کے پہلے منتخب جمہوری صدر تھے جنہوں نے ملک پر 30 سال سے برسرِ اقتدار مامون عبدالقیوم کو انتخابات میں شکست دی تھی۔
لیکن حکومت کے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد حزبِ مخالف کی کئی سابق جماعتیں محمد ناشید کی جماعت 'مالدیوین ڈیموکریٹک پارٹی' کی حمایت سے دستبردار ہو کر حکمران اتحاد کو خیرباد کہہ گئی تھیں۔