فرانس کوشش کر رہا ہے کہ مالی میں اپریل تک بین الاقوامی امن فورس تعینات کر دی جائے۔
پیرس —
مالی میں اسلام پسند انتہا پسندوں کو کچلنے میں مدد دینے کے لیے فوجی کارروائی شروع کرنے کے ایک مہینے بعد، فرانس نے کہا ہے کہ وہ جلد ہی اپنی فوجوں کو واپس نکالنا شروع کر دے گا۔
فرانس کوشش کر رہا ہے کہ مالی میں اپریل تک بین الاقوامی امن فورس تعینات کر دی جائے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ مالی میں فوجی کارروائی سے افریقہ کے ساتھ فرانس کے تعلق میں تبدیلی کی عکاسی ہوتی ہے۔
فرانس میں صدر فرانسوا اولاندے کی مقبولیت کی شرح مسلسل کم ہو رہی تھی لیکن گذشتہ ہفتے جب وہ مالی کے دورے پر گئے تو ان کا شاندار استقبال ہوا۔
باماکو میں استقبال کرنے والے ہجوم کو خطاب کرتے ہوئے، مسٹر اولاندے نے کہا کہ جنوری میں انھوں نے مالی سے اسلام پسند انتہاپسندوں کو نکالنے کے لیے فوجیں بھیجنے کا فیصلہ مالی کی حکومت اور بین الاقوامی برادی کے مطالبات کے جواب میں کیا تھا اور یہ کارروائی مغربی افریقہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اہم تھی۔
افریقی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مالی میں فرانس کی فوجی کارروائی کا شمار اولاندے کی صدارت کے کارناموں میں کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایسے سیاستداں ہیں جنہیں افریقہ کے معاملات کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہے لیکن مالی کے لوگ انہیں پاپا ہولاندے کے نام سے جانتے ہیں۔
پیرس کے رسالے ‘لا لیٹری دی کانٹیننٹ’ کے چیف ایڈیٹر فریڈریک لیجل بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کا خیال ہے کہ اس کارروائی سے فرانس اور افریقہ کے تعلق میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب یہ تعلق بڑا مبہم دوست نوازی اور قابلِ اعتراض کاروباری تعلقات سے عبارت تھا۔
لیجل کہتے ہیں کہ جب سے مسٹر اولاندے نے اقتدار سنبھالا ہے وہ فرانس کی سابق نو آبادیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
وہ پارلیمینٹ کو باخبر رکھتے ہیں اور واضح مقاصد کے ساتھ ، سرکاری وفود افریقہ بھیج رہے ہیں۔ اگرچہ تبدیلی کا یہ عمل صدر اولاندے کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا، لیکن مسٹر اولاندے نے اپنا مخصوص انداز اختیار کیا ہے جس میں انسانی حقوق کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔۔اگرچہ پالیسی کی تشکیل میں فرانس کے کاروباری مفادات کا بھی دخل ہوتا ہے۔
فرانس کی فوجوں نے 2011 میں آئیوری کوسٹ میں قیادت کے بحران کے دوران کارروائی کی تھی اور چاڈ کے صدر ایدریس ڈیبی کو انٹیلی جنس اور دوسری سہولتیں فراہم کی تھیں جب ان کی فوج 2008 میں باغیوں سے لڑ رہی تھی۔
مالی کے آپریشن کے لیے فرانس کی کوشش ہے کہ اسے کثیر الملکی شکل دی جائے جس میں یورپ اور امریکہ سے مدد مانگنا شامل ہے۔
اگرچہ صدر اولاندے نے کہا ہے کہ فرانس کی فوجیں اس وقت تک مالی میں رہیں گی جب تک ایسا کرنا ضروری ہو گا، لیکن پیرس چاہتا ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو، مغربی افریقہ کی فورس یہ ذمہ داری سنبھال لے۔
پیرس میں گذشتہ بدھ کو رپورٹروں سے باتیں کرتے ہوئے، وزیرِ خارجہ لیرانٹ فیبز نے کہا کہ فرانس مالی سے اپنے فو ج کے اندازاً 4,000 سپاہیوں کا انخلا اگلے مہینے شروع کر سکتا ہے ۔ جو فوجی وہاں باقی رہ جائیں گے ان کا مقصد یہ ہو گا کہ شمال میں بچے کھچے انتہا پسندوں کا صفایا کیا جائے۔
وزیر خارجہ نے تجویز پیش کی کہ مغربی افریقہ کی فورس اقوامِ متحدہ کے اختیار کے تحت اپریل تک بین الاقوامی امن فوج میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
فی الحال نہ صرف مالی میں بلکہ فرانس کے اندر بھی صدر اولاندے کی واہ واہ ہورہی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرانسیسیوں کی اکثریت مالی کے آپریشن کی حامی ہے۔
ان میں یویس ناویری بھی شامل ہیں جو برٹینی کے گاؤں میں رہتے ہیں اور ریٹائرڈ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں فرانس افریقہ کو زیادہ اچھی طرح سمجھتا ہے۔ لہٰذا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فرانس کو مالی میں فوجیں بھیجنی چاہیئے تھیں۔
لیکن ماہرین انتباہ کرتے ہیں کہ اگر فرانسیسی فوجی زیادہ دن مالی میں رہے اور ان کی لعشیں ملک میں واپس آنا شروع ہوئیں، تو یہ جذبات تیزی سے تبدیل ہو سکتے ہیں۔
تجزیہ کار لیجل کہتے ہیں ‘‘کہ مسٹر اولاندے اسی وجہ سے چاہتے ہیں کہ اس آپریشن کو افریقی شکل مل جائے ۔ وہ کہتے ہیں کہ فرانسیسی صدر کا خیال ہے کہ افریقہ کو اپنے مسائل خود حل کرنے چاہئیں۔’’
حکومت کا اندازہ ہے کہ مالی میں فوجی کارروائی پر اب تک 9 کروڑ ڈالر خرچ ہو چکے ہیں لیکن اس کے علاوہ اور اخراجات بھی ہو سکتے ہیں۔
فرانس نے ملک کے اندر سیکورٹی کے انتظامات میں اضافہ کر دیا ہے کیوں کہ اسے انتقامی کارروائی کا ڈر ہے ۔ اس ہفتے کے شروع میں پولیس نے پیرس کے نواح سے چار افراد کو گرفتار کیا جن پر مغربی اور وسطی افریقہ کے ساحل کے علاقے میں، انتہا پسندوں کے ساتھ رابطے رکھنے کا الزا م ہے۔ آدھی درجن سے زیادہ فرانسیسی باشندے بھی ساحل میں یرغمال بنا لیے گئے ہیں اور ان کے مقدر کا دارومدار علاقے میں فرانس کے اگلے اقدامات پر ہو سکتا ہے ۔
فرانس کوشش کر رہا ہے کہ مالی میں اپریل تک بین الاقوامی امن فورس تعینات کر دی جائے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ مالی میں فوجی کارروائی سے افریقہ کے ساتھ فرانس کے تعلق میں تبدیلی کی عکاسی ہوتی ہے۔
فرانس میں صدر فرانسوا اولاندے کی مقبولیت کی شرح مسلسل کم ہو رہی تھی لیکن گذشتہ ہفتے جب وہ مالی کے دورے پر گئے تو ان کا شاندار استقبال ہوا۔
باماکو میں استقبال کرنے والے ہجوم کو خطاب کرتے ہوئے، مسٹر اولاندے نے کہا کہ جنوری میں انھوں نے مالی سے اسلام پسند انتہاپسندوں کو نکالنے کے لیے فوجیں بھیجنے کا فیصلہ مالی کی حکومت اور بین الاقوامی برادی کے مطالبات کے جواب میں کیا تھا اور یہ کارروائی مغربی افریقہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اہم تھی۔
افریقی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مالی میں فرانس کی فوجی کارروائی کا شمار اولاندے کی صدارت کے کارناموں میں کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایسے سیاستداں ہیں جنہیں افریقہ کے معاملات کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہے لیکن مالی کے لوگ انہیں پاپا ہولاندے کے نام سے جانتے ہیں۔
پیرس کے رسالے ‘لا لیٹری دی کانٹیننٹ’ کے چیف ایڈیٹر فریڈریک لیجل بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کا خیال ہے کہ اس کارروائی سے فرانس اور افریقہ کے تعلق میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب یہ تعلق بڑا مبہم دوست نوازی اور قابلِ اعتراض کاروباری تعلقات سے عبارت تھا۔
لیجل کہتے ہیں کہ جب سے مسٹر اولاندے نے اقتدار سنبھالا ہے وہ فرانس کی سابق نو آبادیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
وہ پارلیمینٹ کو باخبر رکھتے ہیں اور واضح مقاصد کے ساتھ ، سرکاری وفود افریقہ بھیج رہے ہیں۔ اگرچہ تبدیلی کا یہ عمل صدر اولاندے کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا، لیکن مسٹر اولاندے نے اپنا مخصوص انداز اختیار کیا ہے جس میں انسانی حقوق کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔۔اگرچہ پالیسی کی تشکیل میں فرانس کے کاروباری مفادات کا بھی دخل ہوتا ہے۔
فرانس کی فوجوں نے 2011 میں آئیوری کوسٹ میں قیادت کے بحران کے دوران کارروائی کی تھی اور چاڈ کے صدر ایدریس ڈیبی کو انٹیلی جنس اور دوسری سہولتیں فراہم کی تھیں جب ان کی فوج 2008 میں باغیوں سے لڑ رہی تھی۔
مالی کے آپریشن کے لیے فرانس کی کوشش ہے کہ اسے کثیر الملکی شکل دی جائے جس میں یورپ اور امریکہ سے مدد مانگنا شامل ہے۔
اگرچہ صدر اولاندے نے کہا ہے کہ فرانس کی فوجیں اس وقت تک مالی میں رہیں گی جب تک ایسا کرنا ضروری ہو گا، لیکن پیرس چاہتا ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو، مغربی افریقہ کی فورس یہ ذمہ داری سنبھال لے۔
پیرس میں گذشتہ بدھ کو رپورٹروں سے باتیں کرتے ہوئے، وزیرِ خارجہ لیرانٹ فیبز نے کہا کہ فرانس مالی سے اپنے فو ج کے اندازاً 4,000 سپاہیوں کا انخلا اگلے مہینے شروع کر سکتا ہے ۔ جو فوجی وہاں باقی رہ جائیں گے ان کا مقصد یہ ہو گا کہ شمال میں بچے کھچے انتہا پسندوں کا صفایا کیا جائے۔
وزیر خارجہ نے تجویز پیش کی کہ مغربی افریقہ کی فورس اقوامِ متحدہ کے اختیار کے تحت اپریل تک بین الاقوامی امن فوج میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
فی الحال نہ صرف مالی میں بلکہ فرانس کے اندر بھی صدر اولاندے کی واہ واہ ہورہی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرانسیسیوں کی اکثریت مالی کے آپریشن کی حامی ہے۔
ان میں یویس ناویری بھی شامل ہیں جو برٹینی کے گاؤں میں رہتے ہیں اور ریٹائرڈ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں فرانس افریقہ کو زیادہ اچھی طرح سمجھتا ہے۔ لہٰذا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فرانس کو مالی میں فوجیں بھیجنی چاہیئے تھیں۔
لیکن ماہرین انتباہ کرتے ہیں کہ اگر فرانسیسی فوجی زیادہ دن مالی میں رہے اور ان کی لعشیں ملک میں واپس آنا شروع ہوئیں، تو یہ جذبات تیزی سے تبدیل ہو سکتے ہیں۔
تجزیہ کار لیجل کہتے ہیں ‘‘کہ مسٹر اولاندے اسی وجہ سے چاہتے ہیں کہ اس آپریشن کو افریقی شکل مل جائے ۔ وہ کہتے ہیں کہ فرانسیسی صدر کا خیال ہے کہ افریقہ کو اپنے مسائل خود حل کرنے چاہئیں۔’’
حکومت کا اندازہ ہے کہ مالی میں فوجی کارروائی پر اب تک 9 کروڑ ڈالر خرچ ہو چکے ہیں لیکن اس کے علاوہ اور اخراجات بھی ہو سکتے ہیں۔
فرانس نے ملک کے اندر سیکورٹی کے انتظامات میں اضافہ کر دیا ہے کیوں کہ اسے انتقامی کارروائی کا ڈر ہے ۔ اس ہفتے کے شروع میں پولیس نے پیرس کے نواح سے چار افراد کو گرفتار کیا جن پر مغربی اور وسطی افریقہ کے ساحل کے علاقے میں، انتہا پسندوں کے ساتھ رابطے رکھنے کا الزا م ہے۔ آدھی درجن سے زیادہ فرانسیسی باشندے بھی ساحل میں یرغمال بنا لیے گئے ہیں اور ان کے مقدر کا دارومدار علاقے میں فرانس کے اگلے اقدامات پر ہو سکتا ہے ۔