واشنگٹن —
امریکہ کی ایک سابق سفارت کار کا کہنا ہے کہ مذہبی شدت پسند جِن سے فرانس آج مالی میں جنگ لڑ رہا ہے، ماضی میں وہ اُنھیں تاوان کے طور پر کروڑوں ڈالر فراہم کرتا رہا ہے۔
وِکی ہڈلسٹون سابق امریکی سفیر ہیں، جو مالی میں تعینات رہ چکی ہیں۔
اُنھوں نے یہ بات ’آئی ٹیلی‘ نامی فرانسیسی ٹیلی ویژن اسٹیشن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی جو جمعے کے روز نشر ہوا۔
ہڈلسن نے کہا کہ 2010ء میں اغوا ہونے والےاپنے شہریوں کو چھڑانے کےلیےفرانس نے ایک کروڑ ستر لاکھ ڈالر ادا کیے تھے، جنھیں شمالی نائیجر میں اسلامی مغرب سےتعلق رکھنے والی القاعدہ نے اغوا کیا تھا۔
سابق سفیر نے کہا کہ یہ ادائگیاں بالواسطہ طورپر کی گئی تھیں اور یہ رقوم حکومت مالی کے ہاتھ چڑہ گئی تھیں۔ اُن کے مطابق، بعد میں اِن رقوم کا ایک حصہ شدت پسندوں کو دیا گیا، جِنھوں نے اِس پیسے سے ہتھیار خریدے اور دہشت گرد بھرتی کیے۔
کلائیڈ گو، جو فرانس کے سابق صدر نکولا سرکوزی کےچیف آف اسٹاف کےطور پر فرائض انجام دے چکے ہیں، اُنھوں نے اِس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فرانس نے تاوان میں کسی قسم کی ادائگیاں نہیں کیں۔ اُنھوں نے’ آئی ٹیلی‘ کو بتایا کہ مغویوں کی رہائی ثالثوں کی مدد سے ممکن ہوئی تھی۔
فرانسیسی صدر فرانسواں ہولاں نے ہڈلسٹوں کے الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
لیکن، جمعے کے روز برسلز میں یورپی یونین کے ایک اجلاس کے دوران ایک نجی ملاقات میں اُنھوں نے ساحل کے علاقے میں حال ہی میں اغوا ہونے والے سات فرانسیسی شہریوں کا ذکر کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس سلسلے میں فرانس ہمدردوں کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اُن کے بقول، مغویوں کی رہائی کے لیے رقوم اکٹھی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
واشنگٹن میں، امریکی محکمہٴ خارجہ کی خاتون ترجمان، وکٹوریا نُلینڈ نے کہا ہے کہ امریکہ ہڈلسٹون کی تشویش سے اس حد تک متفق ہے کہ القاعدہ اور دیگر دہشت گرد اغوا کے ہتھکنڈے کو پیسے بٹورنے کے حربے کے طور پر استعمال کرتے رہےہیں۔
ہڈلسٹون نے کہا ہےکہ دیگر ممالک نے بھی تاوان میں رقوم دیں، جس بنا پر مسلح اسلام پسند گروہ اِس قابل بنے کہ گذشتہ سال شمالی مالی کا کنٹرول سنبھال لیا۔
اُنھوں نے کہا کہ شائع شدہ اعدادوشمار اُن کی نظر سےگزرے ہیں جِن میں اس کی مالیت تقریباً آٹھ کروڑ90لاکھ ڈالر بتائی جاتی ہے۔
ہڈلسٹون 2002ء سے 2005ء تک مالی میں امریکی سفیر رہ چکی ہیں۔
وِکی ہڈلسٹون سابق امریکی سفیر ہیں، جو مالی میں تعینات رہ چکی ہیں۔
اُنھوں نے یہ بات ’آئی ٹیلی‘ نامی فرانسیسی ٹیلی ویژن اسٹیشن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی جو جمعے کے روز نشر ہوا۔
ہڈلسن نے کہا کہ 2010ء میں اغوا ہونے والےاپنے شہریوں کو چھڑانے کےلیےفرانس نے ایک کروڑ ستر لاکھ ڈالر ادا کیے تھے، جنھیں شمالی نائیجر میں اسلامی مغرب سےتعلق رکھنے والی القاعدہ نے اغوا کیا تھا۔
سابق سفیر نے کہا کہ یہ ادائگیاں بالواسطہ طورپر کی گئی تھیں اور یہ رقوم حکومت مالی کے ہاتھ چڑہ گئی تھیں۔ اُن کے مطابق، بعد میں اِن رقوم کا ایک حصہ شدت پسندوں کو دیا گیا، جِنھوں نے اِس پیسے سے ہتھیار خریدے اور دہشت گرد بھرتی کیے۔
کلائیڈ گو، جو فرانس کے سابق صدر نکولا سرکوزی کےچیف آف اسٹاف کےطور پر فرائض انجام دے چکے ہیں، اُنھوں نے اِس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فرانس نے تاوان میں کسی قسم کی ادائگیاں نہیں کیں۔ اُنھوں نے’ آئی ٹیلی‘ کو بتایا کہ مغویوں کی رہائی ثالثوں کی مدد سے ممکن ہوئی تھی۔
فرانسیسی صدر فرانسواں ہولاں نے ہڈلسٹوں کے الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
لیکن، جمعے کے روز برسلز میں یورپی یونین کے ایک اجلاس کے دوران ایک نجی ملاقات میں اُنھوں نے ساحل کے علاقے میں حال ہی میں اغوا ہونے والے سات فرانسیسی شہریوں کا ذکر کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس سلسلے میں فرانس ہمدردوں کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اُن کے بقول، مغویوں کی رہائی کے لیے رقوم اکٹھی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
واشنگٹن میں، امریکی محکمہٴ خارجہ کی خاتون ترجمان، وکٹوریا نُلینڈ نے کہا ہے کہ امریکہ ہڈلسٹون کی تشویش سے اس حد تک متفق ہے کہ القاعدہ اور دیگر دہشت گرد اغوا کے ہتھکنڈے کو پیسے بٹورنے کے حربے کے طور پر استعمال کرتے رہےہیں۔
ہڈلسٹون نے کہا ہےکہ دیگر ممالک نے بھی تاوان میں رقوم دیں، جس بنا پر مسلح اسلام پسند گروہ اِس قابل بنے کہ گذشتہ سال شمالی مالی کا کنٹرول سنبھال لیا۔
اُنھوں نے کہا کہ شائع شدہ اعدادوشمار اُن کی نظر سےگزرے ہیں جِن میں اس کی مالیت تقریباً آٹھ کروڑ90لاکھ ڈالر بتائی جاتی ہے۔
ہڈلسٹون 2002ء سے 2005ء تک مالی میں امریکی سفیر رہ چکی ہیں۔