ناروے میں تیر کمان سے پانچ افراد کی ہلاکت کا معاملہ، پولیس نے واقعہ دہشت گردی قرار دے دیا

حملہ آور کی جانب سے چلایا گیا ایک تیر لکڑی کی دیوار میں پیوست ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ناروے میں تیر کمان کے حملے میں پانچ افراد کو ہلاک کرنے کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد کی اس کارروائی کے واقعے پر ہم ناروے کی حکومت اور عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ترجمان نے ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان سے دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا۔

دوسری طرف ناروے کے قصبے کانگزبرگ کے پولیس حکام نے بتایا ہے کہ قصبے میں تیر کمان کے حملے میں پانچ افراد کی ہلاکت کا واقعہ دہشت گردی معلوم ہوتا ہے۔

جمعرات کی شام ایک پریس کانفرنس میں علاقائی پولیس کے سربراہ اولے بریڈپ سیورد نے بتایا کہ تیر کمان سے حملے کا 37 سالہ مبینہ ملزم ڈینمارک کا شہری اور ایک نو مسلم ہے جو ''قدامت پسندی'' کے الزامات پر پہلے ہی مقامی پولیس کو مطلوب تھا۔

قصبے کانگزبرگ کے حکام کا کہنا ہے کہ قصبے کا یہ رہائشی، جس کا نام جاری نہیں کیا گیا، بظاہر اکیلا حملہ آور تھا۔ ملزم نے حملے کا الزام تسلیم کر لیا ہے اور تفتیش کے دوران وہ اہلکاروں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔

ناروے کی داخلی سیکیورٹی ایجنسی نے کہا ہے کہ تفتیش میں حقائق واضح ہو جائیں گے کہ انھیں اس عمل پر کس نے اکسایا۔

واضح رہے کہ ناروے میں ایک شخص نے تیر کمان سے حملہ کر کے پانچ افراد کو ہلاک اور دو کو زخمی کر دیا ہے۔ زخمی افراد میں ایک پولیس افسر بھی شامل ہے۔

ناروے کی پولیس کے مطابق واقعہ بدھ کو ایک قصبے کانگزبرگ میں پیش آیا جہاں تیر کمان سے لیس ایک شخص نے لوگوں پر تیر برسائے۔ پولیس نے حملہ آور کو گرفتار کر لیا ہے۔

کانگزبرگ کا علاقہ ناروے کے دارالحکومت اوسلو سے 68 کلو میٹر کی مسافت پر ہے جہاں تقریباً 28 ہزار نفوس رہائش پذیر ہیں۔

پولیس کے سربراہ اوئیونڈ اآس نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ ملزم نے کچھ حملوں میں تیر کمان کا استعمال کیا اور پولیس تحقیقات کر رہی ہے کہ حملوں میں کوئی اور ہتھیار بھی استعمال ہوا یا نہیں۔

پولیس سربراہ اوئیونڈ آس صحافیوں کو تفصیلات بتاتے ہوئے۔

پولیس چیف نے مزید کہا کہ حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ہماری معلومات کے مطابق اس شخص نے تنہا ہی یہ تمام حملے انجام دیے ہیں۔ ان کے بقول پولیس اس بات کی بھی تحقیقات کرے گی کہ حملہ دہشت گردی ہے یا نہیں۔

واضح رہے کہ 2011 کے بعد پہلی مرتبہ ناروے میں کوئی ایسا حملہ ہوا ہے جس میں پانچ لوگوں کی جان گئی ہے۔

اس سے قبل 2011 میں دائیں بازو کے ایک شدت پسند آندریس بیہرنگ نے ایک یوتھ کیمپ میں حملہ کر کے 77 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جن میں بیش تر نوجوان تھے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ پولیس نے اس واقعے کی بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

پولیس تحقیقات کرے گی کہ واقعہ دہشت گردی تھا یا نہیں۔

ناروے کی وزیرِ اعظم ایرنا سولبرگ نے واقعے پر نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گانگزبرگ سے آنی والی خبریں خوف ناک ہیں۔ ان کے بقول بہت سے لوگ اس واقعے سے خوف زدہ ہیں، مگر اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ اب پولیس نے کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

دوسری جانب پولیس نے افسران کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنا اسلحہ ساتھ رکھیں۔

ناروے کی پولیس عموماً غیر مسلح ہوتی ہے مگر افسران ضرورت کے تحت بندوق اور رائفلیں ساتھ رکھ سکتے ہیں۔

اس رپورٹ میں مواد خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔