ناروے کی وزیر اعظم ایرما سولبرگ نے دارالحکومت اوسلو کی ایک مسجد میں فائرنگ کے واقعے کے ایک روز بعد آج اتوار کو ایک مقامی ہوٹل میں قائم کی گئی عارضی مسجد میں منعقد ہونے والی دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ایک حملہ آور کی طرف سے فائرنگ کے اس واقعے کی ممکنہ طور پر نفرت پر مبنی جرم کے حوالے سے تحقیقات کرے گی۔
حملہ آور مسلح شخص کی عمر بیس سے تیس سال کے درمیان ہے اور وہ ناروے کا شہری ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور نوجوان مسجد کے قریبی علاقے میں رہائش پزیر تھا اور اس نے اپنے اس اقدام کی وضاحت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
پولیس کو گذشتہ ہفتے کے روز اس حملہ آور شخص کے گھر سے ایک نوجوان عورت کی لاش بھی ملی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ جب یہ شخص مسجد میں حملہ آور ہوا تو وہاں موجود ایک 75 سالہ شخص محمد صدیق نے اسے روکنے کی کوشش کی جس کے دوران انہیں گولی لگی۔ بیس منٹ کی مزاحمت کے دوران محمد صدیق کی ایک آنکھ بھی شدید زخمی ہو گئی۔
فائرنگ کے اس واقعے کے بعد امام مسجد عرفان مشتاق مسجد میں داخل ہوئے ۔ انہوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے قالین پر گولیوں کے خول اور خون بکھرا ہوا دیکھا۔
پولیس نے یہ وضاحت نہیں کی کہ مذکورہ عمر رسیدہ شخص محمد صدیق نے کس طرح اس نوجوان حملہ آور پر قابو پایا۔ تاہم پولیس نے حملہ آور شخص کو گرفتار کر لیا۔
مسجد کے امام عرفان مشتاق نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ حملہ آور ایک سفید فام نوجوان تھا جس نے ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی تھی۔
عرفان مشتاق نے بتایا کہ جس نمازی نے حملہ آور کو پکڑا ان کی عمر 75 سال ہے اور وہ حملے کے وقت نماز سے فارغ ہونے کے بعد مسجد میں قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ۔
امام مسجد کے بقول حملہ آور نے سیاہ لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور اس کے پاس کئی ہتھیار تھے۔
وائس آف امریکہ کی شہناز عزیز نے امام مسجد حامد علی فاروق اور مقامی سیاست میں سرگرم ارشد جمیل سے فون پر بات کی۔ اس بات چیت کی ریکاردنگ سننے کیلئے اس لنک پر کلک کریں: