’مسٹر منڈیلا اور جنوبی افریقہ نے بخوبی ثابت کیا کہ آزادی اور انسانی حقوق کی جنگیں کس طرح لڑی جاتی ہیں‘: اوباما
واشنگٹن —
جنوبی افریقہ کے سابق صدر آنجہانی نیلسن منڈیلا کی یاد میں منعقد کی جانے والی تقریب کے سلسلے میں منگل کے روز جوہنسبرگ میں 60000سے زائد افراد شریک ہوئے۔
منگل کو موسلا دھار بارش کا تانتا بندھا رہا۔ تاہم، مسٹر منڈیلا کو خراج عقیدت پیش کرنے والے افراد گاتے اور جھومتے رہے، جب کہ تقاریر کرنے والوں نے آنجہانی کی طرف سے نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے اہم کردار کی تعریف کی، جس کے باعث جنوبی افریقہ میں نسلی تفریق کے علاج کا مجرب نسخہ آزمایا گیا۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ مسٹر منڈیلا کی رحلت ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔
اُن کے بقول، ’جنوبی افریقہ سے ایک ہیرو رخصت ہوا۔ آپ نے ایک والد کھویا ہے۔ جب کہ دنیا سے ایک محبوب دوست اور معتبر صلاح کار چلا گیا۔ نیلسن منڈیلا ہمارے عہد کےعظیم ترین رہنماؤں سے کہیں زیادہ تھے، وہ ایک عظیم ترین استاد تھے‘۔
امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ مسٹر منڈیلا اور جنوبی افریقہ نے بخوبی ثابت کیا کہ آزادی اور انسانی حقوق کی جنگیں کس طرح لڑی جاتی ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، نیلسن منڈیلا ہمیں اِس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں یہ جب تک کوئی چیز کر کے نہ دکھائی جائے تب تک وہ ممکنات کا درجہ نہیں پاتی۔ جنوبی افریقہ نے یہ ثابت کر دکھایا، جنوبی افریقہ نے ظاہر کردیا کہ ہم بدل سکتے ہیں۔ اور یہ کہ ہم تفریق کی بنیاد پر دنیا کو بہتر نہیں کر سکتے، لیکن یکساں ارادوں کے ساتھ ضرور بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم تنازع کے بل بوتے پر دنیا آباد نہیں کر سکتے۔ لیکن، امن اور انصاف اور موقعہ فراہم کرنے سے ایسا کرسکتے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نےاس بات کی طرف توجہ دلائی کہ یہ یادگاری تقریب مسٹر منڈیلا کو امن کے نوبیل انعام دیے جانے کی 20 ویں برسی کے دِن منعقد کی جا رہی ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ انٹرویو میں، برونڈی (وسطی افریقہ) کے صدر، پائر نِکورنزا نے مسٹر منڈیلا کے مصالحتی کردار کو اجاگر کر۔ اُنھوں نے کہا مہ مسٹر منڈیلا نے 2000ء میں برونڈی کے لیے امن کے سمجھوتے پر دستخط اور اِس پر عمل درآمد کے سلسلے میں ایک تاریخی کردار ادا کیا۔
مسٹر منڈیلا 1994ء میں جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بنے، جس سے قبل، سفید فام حکمرانی کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں، 27 برس تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
منگل کو موسلا دھار بارش کا تانتا بندھا رہا۔ تاہم، مسٹر منڈیلا کو خراج عقیدت پیش کرنے والے افراد گاتے اور جھومتے رہے، جب کہ تقاریر کرنے والوں نے آنجہانی کی طرف سے نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے اہم کردار کی تعریف کی، جس کے باعث جنوبی افریقہ میں نسلی تفریق کے علاج کا مجرب نسخہ آزمایا گیا۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ مسٹر منڈیلا کی رحلت ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔
اُن کے بقول، ’جنوبی افریقہ سے ایک ہیرو رخصت ہوا۔ آپ نے ایک والد کھویا ہے۔ جب کہ دنیا سے ایک محبوب دوست اور معتبر صلاح کار چلا گیا۔ نیلسن منڈیلا ہمارے عہد کےعظیم ترین رہنماؤں سے کہیں زیادہ تھے، وہ ایک عظیم ترین استاد تھے‘۔
امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ مسٹر منڈیلا اور جنوبی افریقہ نے بخوبی ثابت کیا کہ آزادی اور انسانی حقوق کی جنگیں کس طرح لڑی جاتی ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، نیلسن منڈیلا ہمیں اِس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں یہ جب تک کوئی چیز کر کے نہ دکھائی جائے تب تک وہ ممکنات کا درجہ نہیں پاتی۔ جنوبی افریقہ نے یہ ثابت کر دکھایا، جنوبی افریقہ نے ظاہر کردیا کہ ہم بدل سکتے ہیں۔ اور یہ کہ ہم تفریق کی بنیاد پر دنیا کو بہتر نہیں کر سکتے، لیکن یکساں ارادوں کے ساتھ ضرور بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم تنازع کے بل بوتے پر دنیا آباد نہیں کر سکتے۔ لیکن، امن اور انصاف اور موقعہ فراہم کرنے سے ایسا کرسکتے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نےاس بات کی طرف توجہ دلائی کہ یہ یادگاری تقریب مسٹر منڈیلا کو امن کے نوبیل انعام دیے جانے کی 20 ویں برسی کے دِن منعقد کی جا رہی ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ انٹرویو میں، برونڈی (وسطی افریقہ) کے صدر، پائر نِکورنزا نے مسٹر منڈیلا کے مصالحتی کردار کو اجاگر کر۔ اُنھوں نے کہا مہ مسٹر منڈیلا نے 2000ء میں برونڈی کے لیے امن کے سمجھوتے پر دستخط اور اِس پر عمل درآمد کے سلسلے میں ایک تاریخی کردار ادا کیا۔
مسٹر منڈیلا 1994ء میں جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بنے، جس سے قبل، سفید فام حکمرانی کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں، 27 برس تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔