فوجی عدالت نے قرار دیا ہے کہ استغاثہ 25 سالہ میننگ پر "دشمن کی اعانت" جیسا سنگین الزام ثابت نہیں کرسکا جس کا مرتکب قرار پانے پر انہیں عمر قید کی سزا ہوسکتی تھی۔
واشنگٹن —
امریکہ کی ایک فوجی عدالت نے 'وکی لیکس' کو خفیہ سرکاری دستاویزات فراہم کرنے والے فوجی اہلکار براڈلے میننگ پر جاسوسی کے الزام میں فردِ جرم عائد کردی ہے۔
استغاثہ کی جانب سے پرائیوٹ میننگ پر کل 21 الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں سے فوجی عدالت کے مطابق ان پر 19 الزامات ثابت ہوگئے ہیں جن میں سے پانچ جاسوسی سے متعلق ہیں۔
لیکن فوجی عدالت نے قرار دیا ہے کہ استغاثہ 25 سالہ میننگ پر "دشمن کی اعانت" جیسا سنگین الزام ثابت نہیں کرسکا جس کا مرتکب قرار پانے پر انہیں عمر قید کی سزا ہوسکتی تھی۔
کورٹ مارشل کی کاروائی کے دوران میں میننگ نے کئی چھوٹی نوعیت کے الزامات کا خود ہی اعتراف کرلیا تھا۔
"دشمن کی اعانت" کا الزام ثابت نہ ہونے پر براڈلے میننگ عمر قید کی سزا سے تو بچ نکلے ہیں لیکن اب بھی انہیں کئی برس قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی فوجی اہلکار پر جو الزامات ثابت ہوئے ہیں ان کے تحت انہیں مجموعی طور پر 136 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے جو انہیں کسی فوجی قید خانے میں کاٹنا ہوگی۔
فوجی عدالت کے جج کرنل ڈینس لِنڈ کی جانب سے میننگ کی سزا کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
براڈلے میننگ پر الزام تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کے انٹیلی جنس تجزیہ کار کے طور پر عراق میں اپنی تعیناتی کے دوران میں لگ بھگ سات لاکھ سے زائد خفیہ فوجی و سفارتی دستاویزات 'وکی لیکس' کو فراہم کی تھیں جنہیں بعد ازاں ویب سائٹ نے انٹرنیٹ پر جاری کردیا تھا۔
ان دستاویزات میں عراق اور افغانستان جنگ سے متعلق 'پینٹاگون' کی اہم فائلیں اور دنیا بھر میں قائم امریکی سفارت خانوں کی جانب سے واشنگٹن بھجوائی جانے والی خفیہ رپورٹیں بھی شامل تھیں۔
فوجی عدالت میں کور ٹ مارشل کی کاروائی کے دوران میں استغاثہ کے فوجی وکلا نے میننگ کو "غدارِ وطن" قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ وہ جن دستاویزات کو افشا کر رہے ہیں وہ بآسانی 'القاعدہ' جیسی دہشت گرد تنظیم کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔
اس کے برعکس میننگ کے وکیل کا موقف تھا کہ ان کا موکل غدار نہیں بلکہ ایک "سادہ نوجوان اور نیک نیت" شہری ہے جس نے امریکی دستاویزات کا اجرا اس غرض سے کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کے منفی پہلووں پر عوامی مباحثہ ہوسکے۔
منگل کو فوجی عدالت کی جانب سے الزامات ثابت ہونے کا فیصلہ سنائے جانے کے وقت میننگ کمرہ عدالت میں موجود تھے لیکن انہوں نے عدالتی فیصلے پر کسی قسم کا ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔
تاہم 'وکی لیکس' اور انسانی حقوق کی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے براڈلے میننگ پر فردِ جرم عائد کیے جانے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے مستقبل کے لیے ایک "غلط مثال" قرار دیا ہے۔
استغاثہ کی جانب سے پرائیوٹ میننگ پر کل 21 الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں سے فوجی عدالت کے مطابق ان پر 19 الزامات ثابت ہوگئے ہیں جن میں سے پانچ جاسوسی سے متعلق ہیں۔
لیکن فوجی عدالت نے قرار دیا ہے کہ استغاثہ 25 سالہ میننگ پر "دشمن کی اعانت" جیسا سنگین الزام ثابت نہیں کرسکا جس کا مرتکب قرار پانے پر انہیں عمر قید کی سزا ہوسکتی تھی۔
کورٹ مارشل کی کاروائی کے دوران میں میننگ نے کئی چھوٹی نوعیت کے الزامات کا خود ہی اعتراف کرلیا تھا۔
"دشمن کی اعانت" کا الزام ثابت نہ ہونے پر براڈلے میننگ عمر قید کی سزا سے تو بچ نکلے ہیں لیکن اب بھی انہیں کئی برس قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی فوجی اہلکار پر جو الزامات ثابت ہوئے ہیں ان کے تحت انہیں مجموعی طور پر 136 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے جو انہیں کسی فوجی قید خانے میں کاٹنا ہوگی۔
فوجی عدالت کے جج کرنل ڈینس لِنڈ کی جانب سے میننگ کی سزا کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
براڈلے میننگ پر الزام تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کے انٹیلی جنس تجزیہ کار کے طور پر عراق میں اپنی تعیناتی کے دوران میں لگ بھگ سات لاکھ سے زائد خفیہ فوجی و سفارتی دستاویزات 'وکی لیکس' کو فراہم کی تھیں جنہیں بعد ازاں ویب سائٹ نے انٹرنیٹ پر جاری کردیا تھا۔
ان دستاویزات میں عراق اور افغانستان جنگ سے متعلق 'پینٹاگون' کی اہم فائلیں اور دنیا بھر میں قائم امریکی سفارت خانوں کی جانب سے واشنگٹن بھجوائی جانے والی خفیہ رپورٹیں بھی شامل تھیں۔
فوجی عدالت میں کور ٹ مارشل کی کاروائی کے دوران میں استغاثہ کے فوجی وکلا نے میننگ کو "غدارِ وطن" قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ وہ جن دستاویزات کو افشا کر رہے ہیں وہ بآسانی 'القاعدہ' جیسی دہشت گرد تنظیم کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔
اس کے برعکس میننگ کے وکیل کا موقف تھا کہ ان کا موکل غدار نہیں بلکہ ایک "سادہ نوجوان اور نیک نیت" شہری ہے جس نے امریکی دستاویزات کا اجرا اس غرض سے کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کے منفی پہلووں پر عوامی مباحثہ ہوسکے۔
منگل کو فوجی عدالت کی جانب سے الزامات ثابت ہونے کا فیصلہ سنائے جانے کے وقت میننگ کمرہ عدالت میں موجود تھے لیکن انہوں نے عدالتی فیصلے پر کسی قسم کا ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔
تاہم 'وکی لیکس' اور انسانی حقوق کی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے براڈلے میننگ پر فردِ جرم عائد کیے جانے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے مستقبل کے لیے ایک "غلط مثال" قرار دیا ہے۔