|
ایک نئی ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ میں بہت سے طالبعلم ایسے مضامین میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے پر اپنا وقت اور پیسہ خرچ کرتے ہیں جن سے انہیں اپنی عمر بھر کی کمائی میں اتنا مالی فائدہ نہیں ہوتا جتنا کہ وہ توقع کرتے ہیں۔
مساوی مواقعوں پر ریسرچ کے ایک اقتصادی ادارے کی ایک نئی تحقیق میں ماہرین نے 53ہزار ڈگری اور سرٹیفیکیٹ پروگراموں کا جائزہ لیا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا ان ڈگریوں کو حاصل کرنے میں طالبعلم جتنا پیسہ خرچ کرتے ہیں کیا انہیں اپنی عمر بھر کی کمائی میں میں اس کا کوئی قابل قدر فائدہ ہوتا ہے اور اگر وہ ڈگری مکمل نہ کریں تو انہیں کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔
فاؤنڈیشن فار ریسرچ آن ایکوئل اپارچونیٹیز (FREOPP) کے ایک سینئر فیلو پریسٹن کوپر کے مطابق ریسرچ سے ظاہر ہوا کہ ماسٹرز کی لگ بھگ نصف ڈگریوں کےمنفی مالی فائدے ہوتے ہیں۔
ریسرچ سےظاہر ہوا کہ بیچلرز کی ڈگریوں کے 23 فیصد پروگراموں پر جتنا خر چ ہوتا ہے اس کا منفی مالی فائدہ ہوتا ہے ۔ جب کہ دو سال کی ڈگریوں اور ماسٹرز کی 43 فیصد ڈگریاں حاصل کرنے والے طالبعلموں کو ان سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔
ریسرچ سے ظاہر ہوا کہ انڈر گریڈ اور گریجوایٹ لیول کے طالبعلم جن مضامین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی آئندہ زندگی میں کتنا کچھ کمائیں گے ۔مثلاً انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس اور نرسنگ بیچلر کی ڈگریوں میں سرمایہ کاری پر زیادہ مالی منافع ہوتا ہے، جبکہ ایجوکیشن، فائن آرٹس ، نفسیات اور انگریزی کے مضامین کے طالبعلم اپنی عملی زندگی میں تعلیم پر سرمایہ کاری کے اعتبار سے اپنی ملازمتوں یا کاروبار میں کوئی قابل قدر فائدہ نہیں حاصل کر سکتے ۔
کوپر کا کہنا تھا کہ اگرچہ ماسٹرز ڈگری کے حامل افراد بیچلرز ڈگری والے افراد کے مقابلے میں 16 فیصد زیادہ کماتے ہیں لیکن ان کے مضامین کے چناؤ کا ان کے مستقبل کے مالی کیرئیر پر ضرور اثر پڑتا ہے۔
میڈیکل اورقانون کے شعبوں میں گریجویٹ ڈگریاں لینے والے طالبعلم اپنی عملی زندگی میں خوب کماتے ہیں لیکن کوپر کے مطابق، ایم بی اے سمیت ماسٹرز کے پروگراموں کا ایک بڑا حصہ اکثر کم معاوضے کا حامل ہوتا ہے۔
ریسرچ سے ظاہر ہوا کہ jن مضامین کے پڑھنے کے بعد زیادہ تنخواہوں کی ملازمت ملتی ہیں وہ اس بات کی عکاس ہوتی ہیں کہ انہوں نے تعلیم پر جو سرمایہ کاری کی ہے اس کا انہیں زیادہ مالی فائدہ ہو گا۔ ڈگری حاصل کرنے کے بعد اگر سالانہ 57 ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ کی ملازمتیں مل جاتی ہیں تو یہ عمر بھر کی بہترین کمائی کی عکاس ہوتی ہیں۔
لیکن کوپر کہتے ہیں کہ ڈگری کے حصول میں کی گئی سرمایہ کاری سے فائدے کا انحصار ان تعلیمی اداروں پر بھی ہوتا ہے جہاں سے ڈگری حاصل کی گئی ہو۔
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں اعلیٰ تعلیم کے پروفیسر ایمریٹس ولیم ٹیرنی کہتے ہیں کہ جس ادارے میں تعلیم حاصل کی جاتی ہے اس کا معیار بھی طالبعلم کی ملازمت اور مستقبل کی کمائی پر اثر انداز ہوتا ہے
وی او اے سے بات کرتے ہوئے ٹیرنی نےکہا،"ہارورڈ سے ایم بی اے کی ڈگری ایک اچھی ملازمت ملنے کاایک ممکنہ ٹکٹ ہے جب کہ یونیورسٹی آف فینکس سے ایم بی اے، کی ڈگری اس سے کم تنخواہ کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔
تاہم کوپر کہتے ہیں کہ کم اوسط تنخواہوں کے شعبوں میں ڈگری حاصل کرنے والے طالبعلموں کے لیے کچھ ایسے تعلیمی ادارے موجود ہیں جو ان کے مضامین کو زیادہ تنخواہوں والے کیرئیرز میں داخل ہونے میں مدد دیتے ہیں۔
لیکن طلباء مضامین چنتے ہوئے صرف مالی فائدوں ہی کو مد نظر نہیں رکھتے۔
یونیورسٹی آف ٹینیسی، ناکس وِل میں ایجو کیشنل لیڈر شپ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ رابرٹ کیلچین نے وی او اے کو بتایا، "کچھ ڈگریوں سے طالبعلموں کے لیے ایسے شعبوں میں ملازمتو ں کےمواقع کھل جاتے ہیں جن سے وہ لطف اندوز ہو سکتے ہیں، مثلاًپرفارمنگ آرٹس۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "دوسرے مضامین سوشل نیٹ ورکس تک رسائی میں مدد کر سکتے ہیں یا طالب علموں کو کسی ایسے موضوع کے بارے میں جاننے میں مدد کر سکتے ہیں جو ان کی دلچسپی کا ہو۔"
کوپر نے کہا کہ طالبعلم کم منافع والےمضامین میں اپنی تعلیم کے دوران اپنے میجرز کو تبدیل کر کے بہتر منافع دینے والے پروگراموں میں داخل ہوکر بھی اپنی تعلیم وقت پرختم کر سکتےہیں۔
لیکن اگر وہ ان مضامین کو چھوڑ کر منافع بخش مضامین میں تعلیم حاصل کرنا شروع کر دیں تو انہیں ایک یا دو سال مزید ٹیوشن فیس دینا پڑسکتی ہے اور انہیں لیبر فورس سے کچھ زیادہ دیر دور رہنا پڑ سکتا ہے ۔
کوپر نے کہا کہ ہائر ایجو کیشن کے شعبے کو فنڈ دینے والے قانون سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ "اعلیٰ تعلیم پر طالبعلموں پر جتنا خرچ ہو اس سےمعیشت بھی متحرک ہو سکے۔"
ریسرچ سے ظاہر ہوا کہ ،پیل گرانٹس اور طلبہ کے قرض سمیت، وفاقی فنڈنگ کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہائر ایجو کیشن کے پروگراموں پر خرچ ہوتا ہے جن سےطالبعلموں کو اتنا فائدہ حاصل نہیں ہوتا جتنا کہ ہونا چاہیے ۔
کوپر کا نقطہ نظر یہ ہے کہ "کچھ اسکولوں کو چاہئےکہ وہ ایسے پروگراموں کو بند کردیں جن سے کم سرمایہ واپس آ سکے اور اپنے وسائل کو ان پروگراموں پر خرچ کریں جس نے بہتر فائدہ حاصل ہو سکے ۔
انہوں نے کہا کہ اعلی ٰ تعلیم ہمیشہ قابل قدر ہوتی ہے اور آپ کو ہمیشہ اضافی ڈگری حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیوں کہ اس سے آپ کی آمدنی میں اضافہ ہوگا ۔
وی او اے نیوز ۔