پاکستان میں آج کل نئے ڈیم بنانے کے لیے بھرپور مہم جاری ہے۔ دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیمز کی تعمیر کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان بھی بے حد متحرک ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر ملک کے مرکزی بینک اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈیم فنڈ قائم کر رکھا ہے جس میں اب تک 6 ارب 37 کروڑ روپے جمع ہو چکے ہیں۔ عدالتی حکم پر ہی ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈ اکھٹا کرنے کے لئے میڈیا پر اشتہاری مہم بھی بھرپور انداز میں جاری ہے۔
لیکن، دوسری جانب دریائے سندھ پر دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے خلاف ماہی گیروں کی تنظیم، ’پاکستان فشرمین فوک فورم‘ احتجاجی پیدل مارچ پر نکلی ہوئی ہے۔
فشر فوک فورم کا احتجاج صوبہٴ سندھ کے ساحلی علاقے بدین سے ہوتا ہوا ٹھٹھہ پہنچ چکا ہے، جو اگلے مرحلے میں صوبائی دارالحکومت کراچی آئے گا جہاں صوبائی اسمبلی کے باہر احتجاجی دھرنا دیا جائے گا۔
ڈیم کے خلاف مارچ کے شرکا کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ پر دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے سندھ کے زیریں علاقوں میں پانی کی قلت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے احتجاجی پیدل مارچ کے رہنما اور پاکستان فشر فوک فورم کے چئیرمین، محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’’دریائے سندھ میں پانی کی کمی سے سمندر آگے بڑھ کر 40 لاکھ ایکڑ زمین نگل چکا ہے۔ یہی صورتحال رہی تو سجاول اور ٹھٹھہ جیسے بڑے شہر بھی سمندر میں ڈوب جائیں گے‘‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے مطالبات بڑے واضح ہیں؛ ’’اور وہ یہ، کہ ماہی گیروں کو دریائے سندھ پر اب کوئی ڈیم قبول نہیں۔ چاہے وہ کالا باغ کی شکل میں ہو یا دیامیر بھاشا ڈیم کی صورت میں‘‘۔
محمد علی شاہ کے مطابق ’’ڈیمز مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسائل پیدا کرتے ہیں‘‘۔
لیکن، مرکز میں برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اس خیال سے متفق نظر نہیں آتے۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی کا کہنا ہے کہ ’’ملک میں نئے ڈیمز کی تعمیر قوم کی بقا سے منسلک ہے، پانی کے کم ہوتے زخائر اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ نئے ذخائر بنائے جائیں، تاکہ پانی ضرورت کے وقت دستیاب ہوسکے‘‘۔
فردوس شمیم نقوی کا کہنا ہے کہ سیلاب اور تباہ کن بارشوں کے نتیجے میں ملک کو 12 سے 14 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ نئے ڈیم بنانے کے کا مقصد سیلابی پانی کو محفوظ کرنا ہے۔
فردوس شمیم نقوی اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ صوبہ سندھ کے خدشات کو ختم کرنے کے لئے اعتماد سازی کے اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ سندھ کو 1991 کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے تحت پانی کی مکمل فراہمی بھی ازحد ضروری ہے۔
فردوس شمیم نقوی نے الزام لگایا کہ ’’ڈیم کی مخالفت کرنے والے ملک مخالف ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، جس کے لئے سادہ لوح لوگوں کا استحصال کیا جارہا ہے‘‘۔ ان کے مطابق، ڈیم بنانے کا مقصد زیریں علاقوں میں پانی کی فراہمی کو ممکن بنانا ہے۔
پاکستان میں نئے بڑے ڈیمز کی تعمیر کا معاملہ اکثر تنازعات کا شکار رہا ہے۔ خاص طور پر کالا باغ ڈیم تقریباً نصف صدی سے جاری سیاسی تنازعے کے باعث تعمیر کے مرحلے میں داخل نہ ہوسکا۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف اب تک چار میں سے تین صوبائی اسمبلیاں قرارداد بھی منظور کرچکی ہیں۔ جبکہ دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر گلگت بلتستان کے علاقے میں ہونے پر بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر متنازعہ علاقے میں کی جا رہی ہے۔ ایسا کرنے سے پاکستانی حکومت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔