پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ ضلع سوات میں نامعلوم افراد نے پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو قتل کر دیا ہے۔
یہ واقعہ سوات کے علاقے چار باغ میں گزشتہ ہفتے پیش آیا جہاں احمد جلال اور اُن کی اہلیہ کو اُن کے گھر میں گھس کر تیز دھار آلے سے قتل کر دیا گیا۔
پولیس کے مطابق کوہستان ضلع سے تعلق رکھنے والے احمد جلال نے چار ماہ قبل کوہستان ہی سے تعلق رکھنے والی اپنی کزن لاہوری بی بی سے پسند کی شادی کی تھی۔
پولیس کا کا کہنا ہے کہ جلا ل اور لاہوری بی بی نے گزشتہ ہفتے سوات کی تحصیل چارباغ کے ایک گاؤں میں ایک کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کی تھی لیکن جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب انہیں قتل کر دیا گیا۔
پولیس نے واقعے کی اطلاع ملتے ہی مقتولین کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے مقامی اسپتال منتقل کر دیا ۔ پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
اسی بارے میں
بلوچستان میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟خواتین پر تشدد، ہم بھول جائیں گے! اسلام آباد میں نور مقدم کے قتل سے خواتین پر تشدد کا مسئلہ ایک بار پھر نمایاںسوات پولیس کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق پسند کی شادی کرنے والے میاں بیوی کے قتل کے الزام میں پانچ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس قتل میں مقتولین کے قریبی رشتہ داروں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
پولیس کے مطابق مقتولین نے 19 ستمبر 2021 کو پسند سے نکاح کیا لیکن 22 جنوری 2022 کو اپنے نکاح کی رجسٹریشن مقامی نکاح خواں کے پاس کروائی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ غیرت کے نام پر قتل کا نظر آتا ہے کیونکہ مقتولہ لاہوری بی بی کا رشتہ پہلے کئی اور طے ہونے کے بعد منگنی بھی ہو چکی تھی۔ لیکن بعدازں لاہوری بی بی اور احمد جلال نے پسند کی شادی کر لی تھی۔
پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح صوبہ خیبر پختونخوا میں غیر ت کے نام پر قتل کے واقعات اکثر رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ سماجی اور سرکاری سطح پر ان واقعات کی مذمت بھی کی جاتی ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق یہ واقعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا اظہار ِتشویش
انسانی اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ غیر ت کے نام پر قتل کے واقعات کے تدارک کے لیے قوانین کی موجودگی کے باوجود ایسے واقعات کا جاری رہنا لمحہ فکریہ ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم عورت فاؤنڈیشن سے منسلک صائمہ منیر نے سوات واقعے کی مذمت کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مقتولین کا قصور صرف اتنا تھا کہ اُنہوں نے اپنی پسند سے شادی کی تھی۔
اُنہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو فوری طور پر گرفتا ر کر کے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔
سوات پولیس کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ پانچ برس کے دوران اس علاقے میں 38 خواتین سمیت 70 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر واقعات میں وہ افراد نشانہ بنتے ہیں جو اپنے خاندان کی طرف سے طے کردہ شادی سے انکار کر کے اپنی پسند سے شادی کر لیتے ہیں۔
پولیس کے مطابق غیر ت کےنام پر قتل کے واقعات میں ملوث ہونے والے افراد کے خلاف عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے باوجود ان میں سے اکثر سز ا سے بچ جاتے ہیں۔ کیونکہ غیر ت کے نام پر قتل کے واقعات میں مدعی اکثر ملزمان سے صلح کر کے مقدمے کی پوری طرح پیروی نہیں کرتے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے موقر ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2020 میں پاکستان میں غیر ت کے نام پر 511 افراد قتل ہوئے جن میں سے 363 خواتین جب کہ 148 مرد تھے۔
تاہم صائمہ منیر کا کہنا ہے کہ یہ اعدادوشمار رپورٹ ہونے والے واقعات پر مبنی ہیں جب غیر ت کے نام پر قتل ہونے والے کئی ایک واقعات سامنے بھی نہیں آتے۔