'میری ایک بیٹی کو قتل کر دیا گیا اور دو بیٹیوں کی بھی جان کو خطرہ ہے۔ دار الامان میں بھی پناہ لینے کے دوران خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی تھی۔‘
یہ کہنا تھا کوئٹہ کے نواحی علاقے کی رہائشی 50 سالہ سکینہ بی بی (فرضی نام) کا، جو گزشتہ برس جنوری میں اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ روزانہ کے معمولات میں مصروف تھیں کہ اچانک ان کے شوہر اپنے بھائی کے ہمراہ گھر میں داخل ہوئے اور ان کی بڑی بیٹی زینب پر تشدد شروع کر دیا۔
سکینہ کے مطابق انہوں نے اپنی بیٹی کو بچانے کی بہت کوشش کی مگر انہوں نے فائرنگ کرکے اسے قتل کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ باپ اور چچا بیٹی پر ‘کارو کاری’ کا الزام لگا رہے تھے مگر وہ جانتی ہیں کہ ان کی بیٹی بے گناہ تھی۔
سکینہ بی بی نے بتایا کہ بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ وہ لوگ انہیں اور ان کی باقی دو بیٹیوں کو بھی قتل کرنا چاہتے تھے البتہ انہوں نے کسی نہ کسی طریقے سے اپنی جان بچائی اور گھر سے فرار ہو گئے۔
سکینہ بی بی اپنی دو کم سن بیٹیوں کے ساتھ مشکل سے کوئٹہ میں واقع دارالامان پہنچیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ سات ماہ تک دار الامان میں پناہ لی۔ شروع کے دنوں میں انہیں اور ان کی بیٹیوں کو خوف کی وجہ سے نیند نہیں آتی تھی۔ وہ خود کو دار الامان میں بھی خوف کی وجہ سے غیر محفوظ محسوس کرتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی بیٹی کے قاتل کو گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ غیرت کے نام پر قتل قرار دے کر آپس میں راضی نامہ کر کے مقدمہ ختم کیا گیا۔
سکینہ بی بی نے بتایا کہ آج وہ اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ بھائی کے گھر میں رہ رہی ہیں اور خود کو کسی حد تک محفوظ محسوس کرتی ہیں۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کا پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ بلوچستان میں 2021 کے دوران خواتین پر تشدد کے 129 واقعات سامنے آئے جب کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والے افراد کی تعداد 118 بتائی گئی ہے۔
یہ وہ واقعات ہیں جو پولیس اور خبروں کے ذریعے رپورٹ ہوتے رہے ہیں البتہ انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
غیر سرکاری تنظیم 'عورت فاؤنڈیشن' بلوچستان کے ایک حالیہ رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں 2020 کے مقابلے میں 2021 میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل اور گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی گئی ہے اور خواتین کو خود مختار بنانے کے لیے بہت سے پروگرام بھی شروع کیے گئے ہیں جن سے ان واقعات میں کمی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عورت فاؤنڈیشن کی بلوچستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کی صورتِ حال سے متعلق سالانہ رپورٹ کے مطابق پورے بلوچستان میں ہر دوسرے دن ایک عورت قتل یا تشدد کا نشانہ بن جاتی ہے ۔
عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں گزشتہ 12 ماہ کے دوران خواتین پر تشدد کے 129 واقعات رپورٹ ہوئے۔
عورت فاؤنڈیشن کے مطابق 2020 میں خواتین پر تشدد، غیرت کے نام پر قتل اور دیگر واقعات کی تعداد 118 تھی جو 2021 سے کم تھی۔
انسانی حقوق کمیشن کا خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار
انسانی حقوق کمیشن بلوچستان چیپٹر کے وائس چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے حالیہ رپورٹ پر تشویش اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عورت فاؤنڈیشن کی جانب سے جو اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔ یہ صرف اخبارات کی اطلاعات اور رپورٹ ہونے والے کیسز ہیں مگر اصل صورتِ حال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔
طاہر حبیب ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ بعض علاقوں میں رسم و رواج بھی اس کی ایک وجہ ہے جن کا سہارا لے کر خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں عرصہ دراز سے اس مسئلے کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں مگر بد قسمتی سے ابھی تک ایسے واقعات کے سدباب کے لیے کوئی اقدامات نظر نہیں آتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل میں بھی وہی قانون لاگو ہوتا ہے جو کہ کسی عام قتل کے واقعے میں ہوتا ہے۔ البتہ ایسے واقعات میں اکثر کیس کو کمزور کیا جاتا ہے تاکہ قاتل کو سزا نہ ملے اور راضی نامہ بھی ہو جاتا ہے جس سے قاتل کسی طریقے سے بچ جاتے ہیں۔
تیس سالہ شبانہ (فرضی نام) کا تعلق بلوچستان کے علاقے قلعہ سیف اللہ سے ہے۔ 2021 میں ان کے شوہر نے بھی ان پر کارو کاری کا الزام لگایا تھا۔
شبانہ نے بھی سکینہ بی بی کی طرح جان بچا کر کوئٹہ کے دارالامان میں پناہ لی۔ ان کے گھر والوں اور بھائیوں نے بھی انہیں قبول نہیں کیا اور اپنے گھر سے نکال دیا۔
دارالامان کوئٹہ کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شبانہ نے یہاں پانچ ماہ تک پناہ لی اور بعد میں عدالت کے ذریعے یہاں سے روانہ ہوئیں اور اب وہ دوسرے صوبے جا چکی ہیں اور انہوں نے جانے سے پہلے یہ بتایا تھا کہ وہ اس نئے مقام پر خود کو محفوظ محسوس کرتی ہیں۔
اسی طرح نصیر آباد کی ایک لڑکی رضیہ (فرضی نام) نے اپنی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ جب میں رات کو کھیتوں میں رفع ضروریہ کے لیے گئی تو وہاں پولیس وین گشت کر رہی تھی۔ اس دوران میرے بھائی بھی باہر نکل آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے بھائیوں نے یہ خیال کیا کہ وہ پولیس اہل کار سے ملنے باہر نکلی ہیں۔ انہوں نے اسی وقت پولیس کے اہل کار کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا اور ان کو گھر کے اندر لے گئے جہاں انہوں نے کہا کہ کل آپس کے باہمی مشورے سے ان کو بھی مار دیں گے۔
ان کے مطابق وہ رات کو وہاں سے بھاگ گئیں اور اب دارالامان میں پناہ لے رکھی ہے۔ انہیں نہیں پتا کہ ان کے بھائی انہیں کب معاف کریں گے یا شاید پوری زندگی ان کو اب پناہ لینی پڑے۔
غیرت کے نام پر قتل یا الزام لگنے والی خواتین کو کن مشکلات کا سامنا رہتا ہے؟
زرغونہ ایک وکیل ہیں اور بلوچستان میں خواتین کے ایسے کیسز پر عرصہ دراز سے کام کر رہی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ایسی خواتین جن پر کاروکاری کا الزام ہو وہ بہت اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
زرغونہ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسے بہت سے کیسز آتے ہیں خاص طور پر ایسی خواتین کے جنہوں نے دارالامان میں پناہ لے رکھی ہو۔
ان کے بقول ایسی خواتین کو سب سے بڑا مسئلہ پناہ لینے کے علاوہ وکیل کی فیس کی ادائیگی کا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کیس سے متعلق کوئی دستاویزات بھی نہیں ہوتیں جس کہ وجہ سے انہیں پناہ لینے یا بعد میں پناہ سے رہائی حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کئی بار انہوں نے اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر پیسے جمع کیے اور ایسی خواتین کی مالی مدد کی جو کہ دارالامان سے نکلتی ہیں اور ان کے پاس کرائے تک کے پیسے نہیں ہوتے۔
زرغونہ ایسی خواتین کے کیسز بھی بغیر فیس کے مفت لڑتی ہیں۔
خواتین کے حقوق کے تحفظ کے قوانین
عورت فاؤنڈیشن بلوچستان کے سربراہ علاؤ الدین خلجی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بلوچستان میں گھریلو تشدد کے خلاف قوانین بنائے گئے مگر ابھی تک حکومت اس کے رولز آف بزنس بنانے میں ناکام ہے جو کہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ وہ گزشتہ آٹھ برس سے حکومت کو ڈرافٹس بنا کر دے رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ انتہائی اہم نوعیت کے قانون کو فی الفور اسمبلی میں پیش کیا جائے مگر اس میں مذہبی جماعتیں آڑے آ رہی ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی کمیشن ان دی اسٹیٹس آف ویمن کا قیام ابھی تک عمل میں نہیں آیا۔ دوسرے صوبوں میں یہ کمشنز موجود ہیں اور اپنے دو ادوار بھی گزار چکے ہیں۔ اس قانون کو منظور ہوئے چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر بلوچستان میں تاحال یہ فعال نہیں ہوا۔
ان کے بقول اس کمیشن کا نہ تو چیئر پرسن ہے نہ ان کے ارکان بنائے گئے اور نہ ہی انتظامی طور پر اس کمیشن کی فعالیت کے لیے کوئی اقدام کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک یہ کمیشن نہیں بتنا خواتین کے حق میں بننے والے جتنے بھی قوانین ہیں ان پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوگا۔
علاؤالدین خلجی کا کہنا تھا کہ وفاقی سطح پر تو غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون موجود ہے مگر 18 ویں ترمیم کے بعد بلوچستان حکومت نے ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جس کی وجہ سے ایسے واقعات کی روک تھام نہیں ہو رہی۔
بہرام لہڑی بلوچستان کے ایک سماجی کارکن ہیں اور وہ عرصہ دراز سے خواتین کے حقوق پر بھی کام کر رہے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اول تو خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بہت کم قانون سازی ہوئی ہے۔ مگر جتنے قوانین پہلے سے موجود بھی ہیں ان پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا جب کہ عام عوام میں بھی ان قوانین کے حوالے سے شعور و آگاہی نہیں رکھتے۔
ان کے بقول عدالتوں میں بھی قتل کے کئی کیسز برسوں سے التوا کا شکار ہیں۔ سست عدالتی نظام کے باعث ایسے لوگوں کو بہت کم سزائیں ملتی ہیں۔
حکومت خواتین پر تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا کر رہی ہے؟
بلوچستان ویمن ڈویلپمنٹ کے سیکریٹری ظفر علی بلیدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین پر تشدد اور دیگر واقعات کی سب سے بڑی وجہ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں کم شرح خواندگی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو حکومت کوشش کر رہی ہے کہ صوبے میں مرد اور خواتین کی شرح تعلیم میں اضافہ کیا جائے۔
ظفر علی نے بتایا کہ بلوچستان ویمن ڈویلپمنٹ کا ادارہ نہ صرف خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین بنا رہا ہے بلکہ اس پر عمل درآمد کے ساتھ خواتین کو خود مختار بنانے کے لیے بھی متعدد منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین پر گھریلو تشدد کے قانون کے باعث ایسے واقعات میں ماضی کی نسبت کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
ظفر علی بلیدی نے بتایا کہ رواں سال کے مالی بجٹ میں حکومت نے خواتین کی خود مختاری کے لیے خطیر رقم مختص کی ہے جس کے تحت ان کا ادارہ صوبے بھر میں ڈویژن اور ضلع کی سطح پر ویمن امپاورمنٹ سینٹرز کا قیام عمل میں لارہا ہے۔
ان کے بقول اس کے علاوہ اگر کسی خاتون پر گھریلو تشدد ہو تو اس قانون کے تحت نہ صرف ان خواتین کو پناہ دی جائے گی بلکہ اگر وہ قانونی چارہ جوئی کرنا چاہتی ہیں تو انہیں قانونی امداد بھی حکومت بلوچستان فراہم کرے گی۔