پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کی پولیس کے سربراہ نے کہا ہے کہ عبدالولی خان یونیورسٹی میں قتل کیے گئے طالب علم مشال خان کے علاوہ اُن کے دو ساتھیوں عبداللہ اور زبیر پر عائد الزامات سے متعلق تاحال کوئی ثبوت نہیں ملا۔
خیبر پختونخواہ کے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین محسود نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ’’مشال، عبداللہ اور زبیر پر جو الزامات تھے، اُن الزامات کے بارے میں ہمیں ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا، جس کی بنیاد پر تفتیش یا عدالتی کارروائی ہو سکے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پولیس نے تفتیش میں مدد کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ سے بھی مدد مانگ لی ہے۔
’’اس لیے کہ سوشل میڈیا کی ویب سائیٹ پر بہت سی ویڈیو یا تصاویروں میں (ہیرا پھیری، ردوبدل) ہوتا ہے۔۔۔ اُس کے لیے ہم کو ایف آئی اے کی ماہرانہ رائے چاہیئے ہو گی۔۔۔۔ ہم سائنسی خطوط پر تفتیش کر رہے ہیں۔‘‘
انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین محسود نے بتایا کہ ’’عبداللہ آج عدالت میں پیش ہوا تھا اور اپنا بیان ریکارڈ کروایا ہے۔‘‘
اگرچہ صوبائی پولیس سربراہ نے عبداللہ کے بیان کی مزید وضاحت نہیں کی لیکن سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق عبداللہ نے اپنے بیان میں خود اور مشال خان پر لگنے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے دوست نے یونیورسٹی انتظامیہ کے بعض فیصلوں کے خلاف آواز بلند کی تھی، جس کی وجہ سے انتظامیہ مشال سے نالاں تھی۔
واضح رہے کہ اتوار کو بڑی تعداد میں مرد و خواتین نے مشال خان کے آبائی علاقے صوابی کے قصبے زیدا میں جمع ہو کر اُن کی ہلاکت کے خلاف نعرے بازی کی اور بعد ازاں قبرستان جا کر مشال کی قبر پر پھول بھی چڑھائے۔
پولیس کے مطابق یونیورسٹی میں مشتعل طالب علموں کی طرف سے مشال خان کو تشدد کر کے ہلاک کرنے کے واقعے کے بعد 59 طالب علموں کو گرفتار کیا گیا ’’جن میں سے کچھ کے کپڑے خون آلود تھے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پولیس نے ’ایف آئی آر‘ میں 20 افراد کو نامزد کیا ’’اُن 20 نامزد ملزمان میں سے 16 گرفتار ہو چکے ہیں۔‘‘
انسپکٹر جنرل پولیس نے کہا کہ تفتیش کے دوران دیگر 11 افراد کی بھی شناخت کی گئی جن میں سے چھ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین محسود نے کہا کہ اب تک کی تحقیقات سے عدالت عظمٰی کو منگل کو آگاہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس معاملے کا از خود نوٹس لے رکھا ہے۔
گزشتہ ہفتے مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل افراد نے توہین مذہب کے الزام میں ایک طالب علم مشال خان کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا جب کہ دو دیگر طالب علم عبداللہ اور زبیر زخمی ہو گئے تھے۔
مشال خان کی یوں ہلاکت پر وزیراعظم نواز شریف اور دیگر سیاسی قائدین کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے مذمت کی جا رہی ہے۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق(ایچ آرسی پی) نے ایک بیان میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں ہجوم کے ہاتھوں مشال خان کی ہلاکت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور ’’وحشیانہ قتل کے بعد شہریوں، خاص طورپر طالب علموں اوراساتذہ میں پھیلنے والی دہشت اورخوف پر قابو پانے کے لیے تمام موثر اقدامات کیے جائیں۔‘‘