ترکیہ کے شہر استنبول میں ایک چرچ پر حملے میں ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔ سیکیورٹی اداروں نے حملے میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ترک حکام کا کہنا تھا کہ دو نقاب پوش افراد نے رومن کیتھولک چرچ پر حملہ کیا ہے۔
اس حوالے سے ترک وزیرِ داخلہ علی یرلی کایا نے بتایا کہ استنبول کے سارییر ڈسٹرکٹ میں مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے 11 بجے اس لمحے حملہ کیا گیا جب اندر عبادات جاری تھیں۔
انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس حملے میں کس قسم کے ہتھیار استعمال کیے گئے۔ نہ ہی انہوں نے یہ بتایا کہ حملے میں مزید کوئی شخص زخمی ہوا ہے یا نہیں۔
وزیرِ داخلہ علی یرلی کایا نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکام حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے کارروائی شروع کر چکے ہیں جب کہ اس واقعے کی بڑے پیمانے پر تحقیقات کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔
استنبول کے میئر اکرام ماما اوغلو نے کہا کہ شہر کے اتحاد اور من کو تباہ کرنے کے لیے مذہبی مقامات پر حملوں کی کبھی اجازت نہیں دی جائے گی۔
صحافیوں سے گفتگو میں علی یرلی کایا کا کہنا تھا کہ استنبول یا ترکیہ میں کوئی اقلیت نہیں ہے بلکہ سب برابر کے شہری ہیں۔
دوسری جانب پوپ فرانسس نے اتوار کو سینٹ پیٹرز اسکوائر پر گفتگو میں اس حملے کا ذکر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ استنبول میں چرچ پر حملے کی شکار کمیونٹی سے اظہارِ تعزیت کرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' حملے کی وجوہات واضح نہیں ہو سکی ہیں کیوں کہ کسی بھی تنظیم یا افراد نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
حملے کے فوری بعد پولیس نے علاقے کو گھیر لیا تھا جب کہ امدادی اداروں کے رضا کار بھی اس مقام پر پہنچ گئے۔
'اے پی' کے مطابق حملے میں ہلاک ہونے والے شخص کو تونجر جہان کے نام سے شناخت کیا گیا۔ ان کے اہلِ خانہ نے گفتگو میں بتایا کہ حملے کا نشانہ وہ نہیں بلکہ چرچ تھا۔
ان کے بھتیجے جاگن جہان نے بتایا کہ ان کے انکل ذہنی طور پر معذور تھے۔ ان کا کسی سیاست یا کسی تنظیم سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ کسی کی دعوت پر چرچ گئے تھے اور وہاں نشانہ بن گئے۔
جس چرچ پر حملہ کیا گیا ہے وہ فرانسسکن فیرئیرز کے اطالوی آرڈر کے زیرِ انتظام ہے۔ اٹلی کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ اطالوی وزارتِ خارجہ تمام صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
ان کے بقول انقرہ میں اٹلی کا سفارت خانہ اور استنبول میں قونصل خانہ بھی اس معاملے کو دیکھ رہا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق گزشتہ ماہ دسمبر میں ترک حکام نے 32 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا۔ ان افراد پر شدت پسند تنظیم داعش سے تعلق کا شبہ تھا۔
ان افراد پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ترکیہ میں مختلف مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا چاہتے جن میں چرچ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گرفتار افراد پر عراق کے سفارت خانے پر حملے کی منصوبہ بندی کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
ماضی میں شدت پسند تنظیم داعش نے ترکیہ میں متعدد حملے بھی کیے جن میں 2017 میں استنبول میں ایک نائٹ کلب پر حملہ بھی شامل ہے جس میں تین درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)