ایک حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر کے کئی ممالک کے نوجوانوں میں ریاضی اور ریڈنگ یعنی پڑھنے کی صلاحیت میں غیر معمولی کمی دیکھی گئی ہے۔
پیرس کی ایک تنظیم 'آرگنائزیشن فار اکنامک کارپوریشن اینڈ ڈویلپمنٹ' (او ای سی ڈی) نے منگل کو اپنے ایک تازہ ترین سروے کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔
یہ سروے پڑھنے, لکھنے اور سیکھنے کے عالمی معیارات کے مطابق کیا گیا جس میں 81 ممالک کے لگ بھگ سات لاکھ نوجوانوں کو شامل کیا گیا تھا۔
سروے میں 15 سال کی عمر کے نوجوانوں نے گزشتہ برس ریاضی، سائنس اور پڑھنے کی صلاحیتوں سے متعلق دو گھنٹے کا ایک ٹیسٹ دیا تھا جسے پالیسی سازوں نے جانچا۔
اس سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سن 2000 کے بعد سے نوجوانوں کی ان صلاحیتوں میں غیر معمولی کمی دیکھی گئی ہے۔
اس طرح کا ٹیسٹ آخری بار 2018 میں کیا گیا تھا۔ حالیہ ٹیسٹ کے نتائج کا موازنہ جب 2018 کے ٹیسٹ کے نتائج کیا گیا تو بچوں کی پڑھنے کی صلاحیت میں اوسطاً 10 پوائنٹس جب کہ ریاضی میں 15 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی۔
SEE ALSO: کرونا وبا کے دو برس، کیا امریکہ میں طلبہ نالائق ہوگئے ہیں؟او ای سی ڈی نے کہا کہ جن 81 ممالک میں سروے کیا گیا ان میں شامل جرمنی، آئس لینڈ، نیدرلینڈز، ناروے اور پولینڈ کے بچوں میں ریاضی کے اسکور میں خاصی تیزی سے کمی دیکھی گئی۔
مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر چار میں سے ایک بچے نے ریاضی، سائنس اور پڑھنے میں کم کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
او ای سی ڈی کے ڈائریکٹر آف ایجوکیشن اینڈریاس شلائیکر نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ "اس کا ذمے دار کسی حد تک کووڈ کو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن زیادہ نہیں۔"
سروے میں دیکھا گیا کہ ایسے ممالک جہاں کرونا وبا کے دوران اسکولوں کی بندش کے وقت بھی بچوں کو اساتذہ کی اضافی مدد فراہم کی گئی ان کا اسکور بہتر رہا۔
اس کے برعکس خراب نتائج کی وجہ موبائل فون کا زیادہ استعمال اور اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کو بیان کیا گیا ہے۔
سروے کے نتائج کے مطابق سب سے اچھی کارکردگی سنگاپور کے بچوں کی رہی جس کے بعد مکاؤ، تائیوان، ہانگ کانگ، جاپان اور جنوبی کوریا کے بچوں نے بھی ریاضی اور سائنس میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
ایسٹونیا اور کینیڈا کا بھی اسکور اچھا رہا ہے جب کہ ریڈنگ (پڑھنے) میں آئرلینڈ، جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان نے سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے۔