سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خشوگی کے 2018 میں قتل کے بعد پہلی بار ترکی کا دورہ کر رہے ہیں۔
سعودی عرب کے اصل حکمران کہلائے جانے والے محمد بن سلمان کے ترکی سمیت مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کے دورے کو ان کی بین الاقوامی سطح پر تنہائی ختم کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں محمد بن سلمان کی ترک صدر سے ملاقات ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب آئندہ ماہ کے وسط میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن سعودی عرب کا دورہ کر نے والے ہیں۔
جو بائیڈن 15 اور 16 جولائی کو سعودی عرب کےدو روزہ دورے میں بادشاہ سلمان بن عبد العزیز آلِ سعود سے ملاقات کریں گے۔ ممکنہ طور پر اس ملاقات میں شہزادہ محمد بن سلمان بھی موجود ہوں گے۔ ملاقات میں سعودی عرب اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ خطے اور بین الاقوامی سطح پر در پیش چیلنجز کو زیرِ غور لایا جائے گا۔
اس کے علاوہ صدر جو بائیڈن خطے کے ممالک کی ایک کانفرنس میں شریک ہوں گے یہ کانفرنس روس کی یوکرین پر جارحیت کے سبب توانائی کی عالمی قیمتوں کے حوالے منقعد کی جا رہی ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے سعودی عرب سے اپنے تعلقات کو ایک بار پھر بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ ترکی کی تجارت میں سعودی عرب کا ایک بڑا حصہ ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ایردوان گزشتہ دو دہائیوں سے ترکی کے سربراہ ہیں۔ تاہم 20 برس کے دوران ایردوان کو اب انتہائی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے جب کہ آئندہ برس ملک میں عام انتخابات کا انعقاد بھی ہونے جا رہا ہے۔
استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں صحافی جمال خشوگی کے قتل کے بعد ترکی میں برسرِ اقتدار ایردوان کی حکومت نے واقعہ کی تمام تفصیلات وقفے وقفے سے جاری کیں۔ یہ معلومات سامنے آنے پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو عالمی سطح ہر سبکی کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ اس قتل کا ذمہ دار انہیں قرار دیا جاتا ہے۔
امریکہ کے خفیہ اداروں نے بھی قرار دیا تھا کہ جمال خشوگی کے قتل کا منصوبہ محمد بن سلمان کی منظور ی سے بنایا گیا تھا۔ تاہم سعودی عرب نے اس کی تردید کی تھی۔
رواں برس اپریل کے آخر میں ایردوان نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران ان کی شہزادہ محمد بن سلمان سے معانقے کی تصویر وائرل ہوئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
’اے ایف پی‘ کے مطابق ترک حکام کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کے دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان دیگر کئی امور کے ساتھ ساتھ مالیاتی اداروں میں تعاون اور چھوٹے یا درمیانے کاروباروں کی معاونت سے متعلق معاونت پر تبالۂ خیال کیا جائے گا۔
صدر ایردوان نے ملک میں معیشت کے لیے غیر روایتی طریقۂ کار اپنایا ہے۔ انہوں نے سود کی شرح کو بڑھانے سے گریز کیا ہے۔ جس پر مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں افراطِ زر میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے اور شہریوں کو اشیا کی قیمتوں میں ایک برس میں دگنے اضافے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات میں کشیدگی لگ بھگ دس برس قبل اس وقت شروع ہوئی تھی جب مصر میں عبد الفتح السیسی نے 2013 میں اخوان المسلمون کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا اور خود صدر بن گئے تھے۔ اس وقت ترکی نے عبد الفتح السیسی کو صدر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سعودی عرب سمیت مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک، جہاں بادشاہتیں قائم ہیں، اخوان المسلمون کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی تھی جب انقرہ نے ریاض کی قیادت میں مختلف عرب ممالک کے قطر کے محاصرے کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ سعودی عرب سمیت مختلف ممالک نے قطر پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کرکے تعلقات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 2017 سے 2021 کے درمیان ان ممالک کے قطر سے تعلقات معطل رہے، بعد ازاں ان کو بحال کر دیا گیا تھا جس کی پہل ترکی نے کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
مبصرین اب بھی یہ سوال اٹھا رہے کہ کیا اس دورے سے محمد بن سلمان اور ایردوان کے درمیان تعلقات میں اعتماد مکمل طور پر بحال ہو سکے گا؟
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ محمد بن سلمان کسی بھی صورت میں جمال خشوگی کے قتل کے بعد ترکی کے اختیار کیے گئے رویے کو نہیں بھول سکتے۔ اور حالیہ دورے سے یہ امکان بھی کم ہی ہے کہ ترکی کی معیشت میں اچانک کوئی مثبت تبدیلی آ جائے۔
واضح رہے کہ محمد بن سلمان نے اپنے حالیہ دورے کا آغاز اردن سے کیا تھا جہاں انہوں نے اردن کے بادشاہ عبد اللہ ثانی الحسین سے ملاقات کی۔
محمد بن سلمان کا اردن میں روایتی انداز سے استقبال کیا گیا تھا۔
اردن کے دورے کے بعد محمد بن سلمان منگل کو مصر پہنچے۔ جہاں مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ان کا استقبال کیا۔
مصر کا دورہ مکمل کرنے کے بعد محمد بن سلمان بدھ کو ترکی جا رہے ہیں۔