خسرہ عالمی سطح پر ایک بار پھر زور پکڑ رہا ہے

نیویارک میں ایک خاتون کو خسرے کی ویکسین دی جا رہی ہے۔ فائل فوٹو

خسرہ ایک ایسی بیماری ہے جو صرف انسانوں میں پائی جاتی ہے۔ اس لئے دنیا سے اس کا خاتمہ چیچک کے خاتمے کی طرح ممکن ہے۔ لیکن ایک انتہائی موثر اور محفوظ ویکسین کے باوجود خسرے کا مرض دوبارہ زور پکڑ رہا ہے۔

حال ہی میں دینا بھر میں ’ورلڈ ایمیونائزیشن ویک‘ کا اہتمام کیا گیا جس کا مقصد لوگوں میں ویکسینز کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ خسرہ ایک ایسا مرض ہے جس کا چیچک کی طرح دنیا بھر سے خاتمہ کرنا ممکن تھا۔ لیکن وائس آف امریکہ کی کیرل پیرسن کی رپورٹ کے مطابق خسرہ وہ مہلک مرض ہے جو پھر سے زور پکڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے اطلاع دی ہے کہ اس سال کے پہلے تین ماہ کے دوران خسرے کے کیسز میں ایک برس پہلے کے مقابلے میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

افریقہ میں صورتحال اور بھی خراب ہے۔ افریقہ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں خسرے کے کیسز میں سات سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر اینٹنی فاچی صحت کے قومی ادارو ں میں متعدی بیماریوں کے بارے میں کی جانے والی تحقیقی سرگرمیوں کی قیادت کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مڈغاسکر میں صورتحال اور بھی سنگین ہے۔

ڈاکٹر فاچی بتاتے ہیں کہ مڈغاسکر میں اس کی وجہ سے تقریباً سو اموات ہو چکی ہیں جبکہ ہزاروں افراد انفیکشن کا شکار ہیں۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ یا صحت کا قومی ادارہ خبردار کرتا ہے کہ خسرے کی ویکسین میں کمی اس مرض کے عالمی سطح پر سامنے آنے کی وجہ بن رہی ہے اور متاثرہ ملکوں میں امریکہ بھی شامل ہے۔ خسرہ اکثر مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر فوچی کہتے ہیں کہ خسرے میں مبتلا ہر دس بچوں میں سے ایک کو کان میں انفیکشن بھی ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ بہرے پن کا شکار ہو سکتا ہے۔ خسرے میں مبتلا ہر بیس بچوں میں سے ایک کو نمونیا ہو سکتا ہے۔ ایک ہزار متاثرہ بچوں میں سے ایک دماغی سوجن کا شکار ہو سکتا ہے اور تین ہزار متاثرہ بچوں میں سے کسی ایک کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ یوں خسرے کو معمولی بیماری سمجھنا غلطی ہے۔

ایموری یونیورسٹی ویکسین سنٹر کے ڈاکٹر والٹر اورن سٹین نے خسرے کے خاتمے کی کوششوں میں اپنی ساری زندگی گزار دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خسرے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پچیدگیاں غریب ملکوں میں زیادہ ہیں۔

ڈاکٹر اورن سٹین کہتے ہیں کہ آپ کو آغاز ان بچوں سے کرنا چاہئیے جن کا خسرے میں مبتلا ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ غذائی کمی کا شکار ہوں۔ ہو سکتا ہے ناقص خوراک کی وجہ سے ان کا وزن بھی کم ہو اور پھر صحت کی سہولتوں تک ان کی رسائی بھی نہ ہو تو ایسے بچوں کے لئے خسرہ قاتل ہو سکتا ہے۔

اگر آپ نے خسرے کی ویکسین نہیں لی ہے یا اگر آپ کا رابطہ خسرے کے مریض سے ہے تو آپ کے خسرے میں مبتلا ہونے کا خطرہ نوے فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ ڈاکٹر ریبیکا مارٹن سی ڈی سی کے عالمی صحت کے مرکز کی سربراہ ہیں۔ وہ کوشش کر رہی ہیں کہ افریقہ کو اس خطرے سے پاک کر دیا جائے۔

ڈاکٹر مارٹن کہتی ہیں کہ یہ انتہائی متعدی مرض ہے اور ہر اس شخص کے لئے خطرہ ہے جس نے ویکسین نہیں لی۔

خسرے سے محفوظ رہنے کا حل یہ ہے کہ خسرے کی ویکسین کی دو خوراکیں لی جائیں ۔ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ والدین میں اس کا شعور پیدا کیا جائے اور انہیں بیماری اور ویکسین کے بارے میں بہتر آگاہی دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ دنیا بھر میں صحت کے نظام اسے اپنی اولین ترجیح بنا لیں ۔