خسرہ بہت سے ممالک میں ایک دفعہ پھر خطرہ بنتا جارہا ہے۔امریکہ میں بیماریوں کی روک تھام کے اداروں کے مطابق، 33ایسے ممالک ہیں جہاں خسرے میں مبتلا مریضوں کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
خسرے کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ نہ صرف غریب بلکہ فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی دیکھنے میں آیا ہے ،جہاں پر باآسانی خسرے کے ٹیکے دستیاب ہیں اور صحت کا ڈھانچہ بھی نسبتاً بہتر ہے۔
بین الاقوامی سطح پر خسرہ کی روک تھام کے ادارے ’میزلز اِنی شئیٹو‘ سے منسلک، ایندریا گے کہتی ہیں کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو اِس وبا سے نمٹنے میں ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک میں زیادہ تر بچوں کو ٹیکے نہیں لگتے کیونکہ ٹیکوں تک اُن کی رسائی نہیں ہوتی۔ لیکن، ترقی یافتہ ممالک میں اُن کو یہ سہولتیں دستیاب ہیں اور یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ وہ اِس سے فائدہ کیوں نہیں اُٹھاتے۔ گے مزید کہتی ہیں کہ سرکاری عہدے داروں کو اِس وبا سے نمٹنے کے لیے زیادہ توجہ دینی ہوگی۔
بچوں کو اِس بیماری کا سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے، جِس کی وجہ سے وہ نابینا پن کا شکار ہوسکتے ہیں اور اُن کا دماغ سوجھ سکتا ہے اور بعض حالات میں یہ بیماری مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، ہر روز 450بچے خسرے سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ خسرے کی وبا سے نمٹنے کے لیے کئی برسوں سے کوشش کر رہا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ 2008ء کے آخر تک بھارت کے علاوہ دنیا کے ہر ملک نے خسرے سے ہونے والی اموات میں 90فی صد یا اِس سے بھی زیادہ کمی لانے کا ہدف حاصل کرلیا تھا۔
بھارت ایک بڑا ملک ہے، اِس لیے وہاں پر خسرے سے ہونے والی ہلاکتوں کی شرح سب سے زیادہ ہے اور جو اموات کی مجموعی شرح پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق، خسرے کا خاتمہ دنیا کے تمام حصوں سے کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ وبا ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پھیلتی ہے۔
گے کہتی ہیں کہ ایک بچے کو خسرے سے بچاؤ کے ٹیکے لگانے پر ایک ڈالر خرچ ہوتا ہے۔ لیکن بیشتر ممالک میں اِس حوالے سے سیاسی عزم کی کمی پائی جاتی ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: