پاکستان کے شہر کراچی سے لاپتا ہو کر مبینہ طور پر مرضی سے شادی کرنے والی دعا زہرا کی عمر کا تعین کرنے والے میڈیکل بورڈ نے رپورٹ دی ہے کہ دعا کی عمر 15 سے 16 برس کے درمیان ہے۔
دعا کے والد مہدی کاظمی کے وکیل محمد جبران ناصر نے پیر کو کراچی پریس کلب میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل رپورٹ سے واضح ہے کہ دعا کی عمر 16 برس نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نادرا کی تمام دستاویزات دعا کی اصل عمر کی تصدیق کرتی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ نکاح نامے میں بچی کی عمر 18برس درج ہے جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ پنجاب کے قانون کے مطابق شادی کے لیے لڑکی کی کم سے کم عمر 16سال مقرر ہے۔ چونکہ دعا زہرا کی عمر 16 برس سے کم ہے اس لیے پنجاب کے قانون کے مطابق یہ نکاح نہیں ہوسکتا۔ کم عمری کی شادی غیر شرعی ہے۔
دعا کے والد، مہدی کاظمی کا کہنا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو پیغام دیتا ہوں کہ یہ میری محبت ہی ہے کہ میں اب بھی کھڑا ہوں میں اپنی بیٹی کو صرف اتنا کہوں گا کہ بہت جلد تم میرے پاس ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بچوں کی رہنمائی کرنی ہو گی ۔ اگر وہ غلطی کریں تو بھی ان کی رہنمائی کریں اور ایسے معاملے میں شفقت سے پیش آئیں۔ یہ واقعات کل کو کسی کے بھی بچوں کے ساتھ پیش آسکتے ہیں۔
جبران ناصر کا کہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس کے حکم پر دوبارہ میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا۔ اس کے ساتھ جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے سی کلاس کی پولیس رپورٹ تسلیم نہیں کی۔ بچی ابھی بھی والدین کی آغوش میں نہیں ہے پولیس تفتیش کا ملبہ بچی کے بیان اور اس کے کاندھوں پرڈالے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ نکاح نامہ میں لکھی گئی 18سال عمر جھوٹ پر مبنی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کو اس کیس میں مس گائیڈ کیا گیا جب کہ ہمارے قانون میں واضح ہے کہ عمر کے تعین کے لیے ماہرین شامل ہوتے ہیں۔ تمام تر شواہد بچی کو 16 برس سے کم بتا رہے ہیں۔
جبران ناصر کا کہنا تھا کہ کم عمری میں اغوا اور دیگردفعات لاگو ہوتی ہیں۔ ڈھائی ماہ سے بچی دباؤ میں ہے۔ جبران ناصر کا کہنا تھا کہ جس پرائیویٹ ٹیکسی میں دعا زہرا گئی اس کا نمبر ٹریس نہیں ہوا جب کہ لاہور کے سیف سٹی کیمرے یہ دیکھ سکتے تھے۔ ٹیکسی والے سے اس سے متعلق کوئی تفتیش نہیں ہوئی۔
اُن کے بقول اس کیس میں کچھ افسران معطل ہوئے، کچھ کے تبادلے ہوئے، یہاں تک کہ نکاح کی تاریخ بھی الگ الگ بتائی جاتی رہی۔ پہلے دن سے مؤقف ہے کہ اس کیس میں تفتیشی افسر ٹھیک نہیں ہے۔
اس سے قبل دعا زہرا متعدد ویڈیو بیانات میں اپنی عمر 18 برس بتاتی رہی ہے جب کہ کیس کے دوران عدالت کے حکم پر دعا کا میڈیکل ایگزام ہوا تھا جس میں اس کی عمر 17برس بتائی گئی تھی۔ جسے دعا کے والد مہدی کاظمی نے رد کرتے ہوئے اسے چیلنج کیا تھا۔
عدالت کے حکم پر دوبارہ ہونے والے میڈیکل ایگزام کی رپورٹ سروسز اسپتال کے ریڈیالوجی ڈپارٹمنٹ نے دی جس کے تحت دعا کی ہڈیوں (ہاتھوں، کلائیوں، کہنیوں) کے ساتھ دانتوں کے ٹیسٹ بھی ہوئے جن کی مکمل جانچ کے بعد رپورٹ میں ثابت ہوا کہ دعا کی عمر پندرہ برس کے قریب ہے۔
میڈیکل رپورٹ کو جوڈیشل مجسٹریٹ (ایسٹ) کو پیش کردیا گیا ہے۔ مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر کا کہنا تھا کہ موجودہ رپورٹ کے سامنے آنے سے دعا کے والدین کے بیان کو تقویت ملی ہے جو پہلے روز سے اپنی بیٹی کے کم عمر ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: دعا زہرا کیس: سندھ ہائی کورٹ نے لڑکی کو اپنی مرضی سے فیصلے کی اجازت دے دی
دعا زہرا کے نکاح کا معاملہ
دعا زہرا کراچی میں شاہ فیصل ٹاؤن کے علاقے گولڈن ٹاؤن سے مئی میں لاپتا ہو گئی تھیں۔ بعد ازاں انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ان کی عمر 18 برس ہے اور انہوں نے خود کراچی سے لاہور آ کر ظہیر نامی لڑکے سے شادی کرلی ہے۔
اس پر لاہور کی سیشن کورٹ نے بھی دعا زہرا کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دیتے ہوئے فیصلے میں کہا تھا کہ لڑکی اور لڑکے کو تنگ نہ کیا جائے۔
دعا زہرا کے والد سید مہدی علی کاظمی نے اس شادی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
ایک پریس کانفرنس میں ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی شادی سات مئی 2005 کو ہوئی تو ان کی بیٹی کیسے 18 سال کی ہوسکتی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا تھا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے۔
دعا زہرا کا معاملہ کیسے سامنے آیا؟
دعا زہرا کے والد سید مہدی کاظمی کے مطابق ان کی تین بیٹیاں ہیں جن میں دعا زہرا سب سے بڑی ہیں۔ 16 اپریل کو ان کی بیٹی کوڑے کی تھیلیاں لے کر گھر کی بالائی منزل سے نیچے اتری اور اس کے بعد پراسرار طور پر لاپتا ہوگئی۔
مہدی کاظمی نے اپنے طور پر بیٹی کی تلاش شروع کی جس کے بعد وہ پولیس اسٹیشن گئے۔
ان کے مطابق کراچی میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے جلسے کے سبب پولیس مصروف تھی جس کے باعث ان کی بیٹی کی گمشدگی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
تین روز گزر گئے تو انہوں نے دیگر لوگوں سے رابطے شروع کیے اور انہیں مسئلے سے آگاہ کیا۔ بعد ازاں سوشل میڈیا پر یہ معاملہ زیرِ بحث آیا تو حکام نے نوٹس لیا۔
یوں دعا کی گمشدگی کا معاملہ ہر خاص وعام کی زبان پر آگیا اور سوشل میڈیا پر دعا کی تصاویر کے ساتھ ان کی تلاش کے لیے ٹرینڈز چلنے لگے۔